کچوریوں کی لذت: پاکستان کے اولین صرف کچوری بنانے والے کیفے کا منفرد ذائقہ

Oct 09, 2024 | 17:51

اگر آپ کچوری کے شوقین ہیں اور کراچی یا اسلام آباد میں مقیم ہیں تو ماریہ ڈین دیکھنے کے لیے اسے ایک اچھا موقع سمجھیں جو پاکستان کا اولین صرف کچوری اور ہکوڑے پیش کرنے والا کیفے ہے۔

چینی پکوان مثلاً فرائیڈ رائس، چاؤ مین نوڈلز اور چکن منچورین طویل عرصے سے پاکستانی شوقینوں کے لیے محبوب رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں جنوبی ایشیائی شہر میں کچوری کا ذائقہ عروج پر ہے۔۔ جو دنیا کے طول و عرض میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ یہ مقبول ہوتا ہوا ذائقہ وہی ہے جس پر اس ریسٹورینٹ کی بانی اور شیف ماریہ مشتاق نے اس وقت انحصار اور اعتماد کیا جب انہوں نے پکانے کے لیے تیار منجمد پکوڑوں کی ڈیلیوری سروس کے طور پر ماریہ ڈین شروع کیا۔ یہ 2020 میں وہ گھر سے بنا کر فروخت کرتی تھیں کیونکہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نئی تراکیب اور پکوان آزما رہے تھے۔ماریہ مشتاق نے اس ماہ کے شروع میں عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا، "پھر میرے شوہر نے کہا جو اس منصوبے میں ایک شراکت دار بھی ہے، 'جس طرح سے آپ اسے دم دے کر بناتی ہیں اور چٹنی کے ساتھ پیش کرتی ہیں تو یہ بہت منفرد ہے اس لیے آپ کو تو ایک کیفے کھول لینا چاہیے۔"ماریہ ڈین کی پہلی شاخ نومبر 2021 میں کراچی میں کھولی گئی۔ تین سال بعد کیفے کے کراچی میں دو اور ایک آؤٹ لیٹ اسلام آباد میں بھی ہے۔ریسٹورنٹ میں نو قسم کے پکوڑے اور کچوریاں پیش کی جاتی ہیں جن میں بڑا گوشت، مرغی، بچھڑا، جھینگا اور جھینگے اور مرغی کا مجموعہ، سبزی خور، مشروم اور چاکلیٹ بھری میٹھی قسم شامل ہیں۔مشتاق نے کہا، "کئی لوگ آئے اور کہا، 'اوہ، آپ بہت بہادر ہیں کہ آپ نے صرف ایک کھانے کی بنیاد پر ایک ریستوراں کھولا'۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ کراچی میں ہمارے پاس ایسی مخصوص جگہیں ہیں جہاں ہم نہاری اور بن کباب جیسے مخصوص کھانے کھاتے ہیں تو کچوری کیوں نہیں؟"شیف نے مزید کہا کہ کیفے "پہلے دن سے ہی کامیاب" رہا۔مشتاق نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے چینیوں کے "پھیکے ذائقے" والی کچوریوں کو پاکستانی ذائقے کے مطابق ایک نئے ذائقے سے روشناس کیا،"کچوری بذاتِ خود ایک پکوان کے طور پر بہت پہلے اتنی مقبول نہیں تھی لیکن اب لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک کھانے کی چیز ہے اور اسے پسند کرتے ہیں۔کچوری کو الگ چٹنی کے بجائے چٹنی میں ڈبو کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔مشتاق نے کہا، "کچوری کافی عرصے سے موجود ہے، یہ 2000 سال قدیم چینی پکوان کی طرح ہے اور ہر ثقافت میں موجود ہے لیکن ہر ایک نے اسے اپنے ذائقے اور پسند کے مطابق ڈھالا ہوا ہے۔ نیپالیوں کا اپنا طریقہ ہے، ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں اور ذائقہ ہوتا ہے۔"صارفین نے یہ بھی کہا کہ کچوری"آرام سے کھانے والا کھانا" ہے جو نشاستہ اور پروٹین دونوں اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے۔ دیگر افراد کو انہیں کھانے میں آسانی پسند آئی۔اس ماہ کے شروع میں ماریہ کے ڈین کا دورہ کرنے والے محمد شمس نے عرب نیوز کو بتایا، "مجھے لگتا ہے کہ ہم تیار شدہ کھانوں کے دور میں رہتے ہیں۔ مجھ جیسے بیشتر لوگ [کچوریوں] کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ پکڑنے اور کھانے کے لیے فوراً دستیاب ہیں۔"پاکستانی ثقافت اور خوراک کے نقاد احمر نقوی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کچوری ایک آرام سے کھانے والی غذا ہے اور مختلف ثقافتوں میں "بہت عام" ہے۔انہوں نے کہا، "یہ درحقیقت سموسے کی طرح قدیم ترین اور مانوس ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ آٹے کی ایک مختلف ساخت ہے لیکن طریقہ وہی ہے۔ عالمگیریت کے نتیجے میں آپ زیادہ چینی طرز کی کچوریوں کا مجموعہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ اب زیادہ مقبول ہے کیونکہ یہ جدید زندگی میں فٹ بیٹھتا ہے چاہے سہولت کے لحاظ سے ہو یا امتزاج کے لحاظ سے۔"نقوی نے مزید کہا، کچوری پکانا اور ذخیرہ کرنا بھی بہت آسان ہے۔ماریہ مشتاق مستقبل میں اپنی فہرستِ طعام میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن بنیادی طور پر چینی ذائقوں پر قائم رہنا چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا، "ہم آہستہ آہستہ نوڈلز بھی شامل کر رہے ہیں۔ تو ہمارے پاس مرچوں والے نوڈلز ہیں۔ ہم نے ابھی ایک سوپ کا پیالہ شامل کیا ہے جس میں چکن کے شوربے کے ساتھ نوڈلز ہیں۔ میرے خیال میں اس طرز میں صرف کچوری ہو گی اور ہم صرف اس قسم کے کھانے کے ساتھ تجربہ کرتے رہیں گے جو تیزی سے تیار ہونے والا ہے لیکن نقصان دہ نہیں اور بہت صحت بخش ہے۔

مزیدخبریں