دادو/ نیویارک (جی این آئی + ثناءنیوز) دادو میں ایف پی بند اور ٹھٹھہ میں کوٹ عالمو کے مقام پر شگاف پر نہیں کئے جاسکے۔ پانی کا ریلا جوہی اور میہڑ شہروں کے قریب پہنچ گیا اور دونوں شہروں کے حفاظتی پشتوں پر شدید دباﺅ برقرار ہے۔ سیلاب کے خدشات کے باعث دادو شہر سے انخلا جبکہ ریلے کا بحیرہ عرب میں گرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاک فوج کا امدادی کاموں پر مشتمل آپریشن لبیک جاری ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 300 سے زائد ریلیف کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق آرمی کے انجینئرز توری بند میں پڑنے والے شگاف پر کرنے کےلئے دن رات کوشاں ہیں اور ڈیرہ غازی خان بند میں پڑنے والے شگاف مکمل طور پر پُر کر لئے گئے ہےں۔ کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل شفقات احمد نے کہا ہے دریائے سندھ میں سیلاب سے ستر افراد جاں بحق، پچیس لاکھ افراد بے گھر، پانچ لاکھ مکانات منہدم اور نوے ہزار مویشی ہلاک یا متاثر ہوئے۔ لاڑکانہ میں سیلاب متاثرین نے راشن اور طبی سہولتوں کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ سیلاب متاثرین نے مونو ٹیکنیکل کالج کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے لاڑکانہ کراچی قومی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ جس کے باعث ٹریفک معطل ہو گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ گلگت کے قریب لینڈ سلائیڈنگ سے بند ہونے والی شاہراہ قراقرم پر چھ روز بعد بھی ٹریفک بحال نہیں ہو سکی۔ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 50 فیصد زمین آئندہ ربیع کی فصل کاشت کرنے کے قابل نہیں ہو گی اور ضروری اشیاءدرآمد نہ کی گئیں تو صوبے میں غذائی بحران پیدا ہو جائے گا۔ یہ بات وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے ترقیات و منصوبہ بندی ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں آئندہ سیزن میں گندم، ٹماٹر، دالیں، سبزیاں اور مرغی کی پیداوار متاثر ہوگی جو غذائی قلت اور مہنگائی کا باعث بنے گی۔ انہوں نے کہا ملک میں سیلاب ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے آیا کیونکہ انہوں نے پانی کا راستہ تنگ کیا۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد متاثرین سیلاب کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں مناسب سہولتیں فراہم نہ کی گئیں تو پانچ لاکھ حاملہ خواتین کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے پاکستان میں سیلاب کے باعث ترپن لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔ مزدوروں سے متعلق بین الاقوامی ادارے نے پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے تقریباً 53 لاکھ افراد کا روزگار متاثر ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کےلئے جلد ذرائع آمدن مہیا کرنے پر زور دیا ہے۔ آئی ایل او کے ڈاکٹر تھیوڈور سپریبوم نے بتایا ادارے کے ابتدائی اندازوں کے مطابق سیلاب سے ملک کی مجموعی افرادی قوت کا دس فیصد بے روزگار ہوا۔ سرکاری عہدے داروں کے مطابق زراعت کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کے دیگر شعبوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ خوراک و زراعت کے عالمی ادارہ نے کہا ہے کاشت شدہ فصلوں کے حوالے سے سب سے زیادہ نقصانات صوبہ پنجاب میں ہوئے۔