بنیادی امور کو نظر انداز کرنا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی پرانی عادت ہے ۔اپنی اپنی ترقی ‘ خدمات اور کارنامے گنواتے ہوئے کمال مبالغہ آرائی سے کام لینا ہمارے ہاں سیاست کہلاتا ہے ‘ اور عوام کو کوئی جتنے احسن اور سائنسی انداز سے چکر دے ‘ وہ سیاستدان ‘ معتبر اور مقبول و معروف کے زمروں میں آتا ہے ۔
الیکشن 2008 کے بعد قومی اور صوبائی سطح پر سبھی سیاستدان اقتدار انجوائے کرتے رہے۔ صوبوں کا فرض تھا کہ ‘ وہ بلدیاتی الیکشن کا اہتمام کرتے ‘ اور وفاق کو چاہیے تھا کہ ‘ وہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میںبروقت مد د کرتا ۔پھر جس طرح آج کل سپریم کورٹ کی روایت بن چکی ہے کہ ‘ اس نے سسٹم ٹھیک کرنے کا عزم کر رکھا ہے ‘ کاش وہی بلدیاتی الیکشن کی جانب ایک سنجیدہ فکرو عمل کا مظاہرہ کر تی ۔میڈیا نے بھی اس اشو پر کوئی قابل ذکر و قابل تحسین توجہ نہیں دی ۔
میڈیا نے خوب خبریں ‘ سیاستدان اور پگڑیاں ” بریک “ کیں ‘ لیکن بلدیاتی انتحابات کی شاید میڈیا کو سمجھ ہی نہیں ۔کبھی کبھی کراچی کی بازگشت ملک کے طول و عرض میں ضرور سنائی دی کہ ‘ بلدیاتی الیکشن پر کام ہو رہا ہے ‘ پی پی پی او ر ایم کیو ایم متحدہ لائحہ عمل تشکیل دے رہی ہیں ‘ یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا ‘ لیکن یہ سب کچھ بھی ’ یہ گیا ‘ وہ گیا ‘ سے آگے نہ بڑھ سکا ۔پھر خیبر پختونخواہ سے ہوتی صاحب کبھی کبھی زیب داستان کےلئے بیان داغ دیتے ۔جہاں تک پنجاب حکومت کا تعلق ہے اس کا تو ان ” چھوٹے چھوٹے “ کاموں کی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔یہاں بنیاد سے اوپر تک خدمت ‘ سیاست اور سب کچھ کا محور و مرکز ”ایک “ ہی ہے۔ پس یہاں ” گڈ گورنس “ موجود تھی ۔اور کسی بنیادی یا بالائی چیز کا تصور ہی بے کار تھا ....ع
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
بلوچستان کی طرف دیکھیں تو اس کو را ‘ موساد‘ سی آئی اے اینڈ کمپنی ‘ میر جعفران اور میر صادقین جیسے اغیار کی نظر بد کھا گئی ۔داخلی کمزوریوں اور خارجی دشمن داریوں نے بلوچستان کو آتش فشاں بنا رکھا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ‘ بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی حکومت خاموشیوں کی دلدل ‘ بے عملی کے بھنور اور بد انتظامی کی گرفت میں ہے ‘ وہاں بلدیاتی الیکن کے راستے ہموار کرنا تو دور کی بات کمزوروں اور مجبوروں کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہے ۔جہاں اس جدید دور اور گلوبل ویلج کی سوشیالوجی میں سانس لینا بھی مشکل ہو وہاں گڈ گورنس اور بنیادی حقوق خاک ہوں گے ۔بقول اشفاق حسین ....
چہرے پہ جو لکھا ہے اسے پڑھ لیں گے
اک اور داستان پس ِ داستان ہے
زبان زدِ خاص و عام حد تک بلدیاتی انتحابات کا تذکرہ ضرور رہا ۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ‘ صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کی اعلیٰ سطح کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے الیکشن جلد کرانے کا پیام دیا ۔بات پھر وہی ہے نا....
تیرے وعدوں پر کہاں تک میرا دل فریب کھائے !
اب عام انتخابات کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اور مدہم روشنیوں کے شہر میں بلدیاتی الیکشن کا ”اعادہ “ کیا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ ایک عندیہ 9 جون 2012 کو ‘ پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2012 کی منظوری کے بعد ‘ پنجاب سرکار کی طرف سے بھی آیا تھا ‘ کہ غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا ۔سندھ سے پیر مظہر الحق بھی اکثر ایسے اعلانات سے حیران کرتے رہتے ہیں ۔کے پی کے سے زاہد خان اور بلور صاحب کی زبانیں اللہ تعالیٰ ”مبارک“ کریں تاہم ابھی تک سبھی صوبوں میں بلدیاتی معاملات ہوا میں ہیں یا محض لبوں پر ۔ذرا غور فرمانے کی ضرورت ہے ‘ کہ گزشتہ کئی ماہ سے یہ بات عام تھی کہ ‘ ووٹر ز لسٹیں بوگس ہیں ۔بوگس فہرستوں پر انتخاب ہوتے بھی ‘ تو کیا ہوتے؟ بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر اپنے اپنے مزاج کے معاملات اور اپنی اپنی پسند کی باتیں عام تھیں ۔خُدا خُدا کر کے جب فخرالدین جی ابراہیم کی تعیناتی مشترکہ راضی نامے کے بعد عمل میں آئی ہے ‘ تو یہ بھلا عام انتخابات کی تیاری کریں یا بلدیاتی انتحابات کی ۔آغاز میں جناب صدر نے عدلیہ بحالی کو الگ التوا کا شکار رکھا تھا ۔
قارئین محترم ! جمہوریت کا بھی حیا کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔حیا !!! ورنہ کھوکھلے نعرے تو محض خواب دیتے ہیں ۔اہل نظر تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ....
وہ حیا کی پاسداری کہاں تک کریں گے
آنے لگے ہیں جو خوابوں میں بے نقاب ہو کر
جب سے 18 ویں ترمیم پارلیمانی اور انتظامی امور کا حسن بنی ہے ‘ تب سے کئی پارلیمانی اشخاص کو اس کی سمجھ ہی نہیں آئی ۔کہیں عجیب و ´غریب محکمے ضم ہوئے یا دریافت ہوئے ‘ کہیں ڈویژن آف لیبر ہی کی سمجھ فراست کا حصہ نہ بنی ‘ محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت ابھی تک 18 ویں ترمیم بھگت رہا ہے ۔مطلب یہ نہیں کہ ‘ 18 ویں ترمیم نے کوئی اندھے دریچے کھولے ہیں ‘ معنی یہ ہے کہ ‘ 18 ویں ترمیم کے بعد کئی حکام اندھے دکھائی دے رہے ہیں پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ‘18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی الیکشن کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی گود میں جا گری ہے ۔
پھر وہی بات کہ ‘ خُدا خُدا کر کے جہاں الیکشن کمیشن خود مختار ‘ پھر چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوا ہو وہاں مومن کایہ شعر کہہ کر اور بلدیاتی الیکشن کو اس کے ساتھ نتھی کر کے آگے گزرنا ہو گا ....
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خُدا خُدا کر کے
ہاں‘مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ‘ بلدیاتی الیکشن کی آڑ میں عام انتحابات کو ملتوی کرنے کی سازش کا پکوان پک رہا ہے ۔ یہی نہیں ‘ عنان اقتدار کے مالکان نے ایک اور پنڈورا باکس کھول دیا ہے کہ جس کے تحت نیا احتساب بل منظور کرنے کی کاوشیں عمل میں لائی جا رہی ہیں ۔
وزیر قانون کا کہنا ہے کہ نئے بل کی منظوری کے بعد ماضی کی کرپشن کے معاملات کو نہیں چھیڑا جائے گا ۔اس بل کا مسودہ ن لیگ کو فراہم کر دیا گیا ہے جسے قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے پی پی پی کا نیا شوشہ قرار دیا ہے ۔ اہل نظر ششدر ہیں کہ ‘ بنیاد ٹھیک کئے بغیر کسی بلڈنگ کی درستی کی بات کی جارہی ہے ۔ماضی کے ایک ” احتساب “ میں بھی یہ حساب کتاب تھا کہ‘ فلاں تاریخ سے قبل کے پاک صا ف اور اب بھی ”ماضی“ کے پاک صاف ۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ۔ہر دفعہ ماضی و ا لوں کو چھوٹ مل جاتی ہے اور یہ آج والے بھی کل آنےوالے ماضی کا حصہ بن کر دودھ سے دھل کر شفاف ہو جا ئینگے ۔کیوں ؟ آخر کیوںیہ سب چکر عوام کو دئےے جا رہے ہیں ‘ اور کچھ چکر سبھی سیاستدان مل کر بھی دے جاتے ہیں ۔از راہِ کرم عوام کو چکر دینے کے بجائے انہیں چکروں اور بھنوروں سے نکالیں ۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ‘ عام الیکشن کرانے کا منظم اور مربوط لائحہ عمل بروئے کار لا یا جائے ۔نگران حکومت کے حوالے سے مثبت اور قابل عمل طریقہ کار تشکیل دیا جائے ۔اسلام آباد میں کچھ اور کراچی میں کچھ جیسے چکر مکر روشن مستقبل اور مستحکم جمہوریت کی بنیاد ہر گز نہیں ہیں ۔ہاں ہو سکتے ہیں‘ بلدیاتی انتحابات ‘ تقریبا کام ً مکمل ہیں ۔لیکن کمزوروں کی طرح کے سبھی سیاستدانوں کے خوف انہیں ہونے نہیں دینگے ۔کبھی اور کہیں جماعتی و غیر جماعتی کا تنازع کھڑا ہو گا ۔ کہیں کوئی ن لیگ سے خوفزدہ ہو گا ‘ کوئی تحریک انصاف سے خائف ہو گا ‘ کوئی پری لیول رگنگ کا شاخسانہ کھڑا کرےگا اور ہر کوئی اپنا اپنا افسانہ گھڑے گا ۔
ایسی صور تحال میں ‘بلکہ نازک صورتحال میں ملک مزید پھنسنے اور معیشت مزید ڈوبنے کی متحمل نہیں ہے ۔ رحم کریں !
اے مشیران حکومت اور ارباب اختیار‘ رحم کریں۔ نئی پھلجھڑیاں نہ چھوڑیں ‘ کرنا ہے ‘ تو کوئی عمل کریں۔ غبارے پھو لانا پھر پھاڑ دینا کوئی طرز حکومت نہیں بچپنا ہے ۔۔۔بچپنا !!!
اے سیاستدانو! کبھی کوئی بالغ نظری کالا باغ ڈیم اور مسئلہ کشمیر کے حل کےساتھ ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی روک تھا م کےلئے بھی دکھائیں ۔ چھوڑیں بلبلیاں ‘ کوئی سائنسی و جمہوری عمل دکھائیں!!!