قومی سیاست پر انقلابی دھرنے کے اثرت

لاہور سے 14 اگست کو روانہ ہونیوالے انقلاب اور آزادی مارچ کی اس حیران کن طوالت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ حکومتی وزراء اسے چند ہزار افراد کی ’’ریلی‘‘ قرار دیتے ہوئے کوئی وزن اور اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا دو دن لوگ سڑکوں پر بیٹھیں گے اور بالآخر تھک ہار کر خواجہ سعد رفیق کے بقول نعرے لگاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائینگے۔ خود مارچ اوردھرنوں کی انتظامیہ بھی اس قدر طوالت کا تصور نہیں کررہی تھی مگر دونوں طرف کی ’’مستقل مزاجی‘‘ نے یہ دن دکھائے ہیں کہ آج 26 واں دن ہے مذاکرات کے باوجود کوئی قابل عمل حل سامنے نہیں آیا۔ اب دھرنے کے شرکاء نے شاہراہ دستور اور ڈی چوک پر مستقل ٹھکانے بنالئے ہیں اور غیر معینہ مدت تک قیام کا تہیہ کرلیا ہے۔ لوگ ابتداً اس انقلابی منظر نامے کو بہت اشتیاق سے دیکھتے رہے مگر اب ناظرین کی نگاہیں بھی تھک چکی ہیں۔ اس تاریخی سرگرمی پر مخالف اور موافق تبصروں کا سلسلہ شروع ہے اور طویل عرصے تک جاری رہے گا مگر اس غیر معمولی دھرنے کے کچھ پہلو ایسے بہر صورت ہیں جنکے اثرات ہماری آئندہ قومی سیاست پر ضرور پڑیں گے۔ ذیل میں ہم ان ممکنہ اثرات کا بالترتیب ذکر کررہے ہیں۔
٭مارچ کے قائدین خصوصاً ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے زور دار اور جذباتی خطابات نے ماحول کو خوب گرمادیا ہے۔ یہ گرمی اور جوش اگرچہ وسیع حلقوں میں سرایت نہیں کرسکا کیونکہ ہمارے ہاں مسلکی اور سیاسی فرقہ پرستی نے حق قبول کرنے کی صلاحیت تباہ کردی ہے۔ تاہم غریب تنگ دست اور حساس طبقات نے یہ بات پلے باندھ لی ہے کہ یہ نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ عوامی مسائل کے حل کیلئے ہرگز کار گر ثابت نہیں ہوسکتی خواہ اسے 67 سال کے بجائے کئی سو سال بھی پنپنے کا موقع دیا جائے کیونکہ ان دھرنوں نے پاکستان کے بچے بچے کے سامنے حقیقی جمہوریت کا کردار بڑا واضح کردیا ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے امریکہ سمیت مغربی ممالک میں موجود جمہوریت سے درجنوں واقعات اور مثالیں پیش کرکے لوگوں کو حکمرانوں کی ذمہ داریاں باور کروائی ہیں۔
٭دیکھنے اور پرکھنے والوں نے بے حسی کا وہ منظر بھی محفوظ کرلیا ہے جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مسلسل تین دن ’’جمہوریت‘‘ اور آئین کی حفاظت کے عہد کئے گئے مگر کسی نے اس جمہوریت اور آئین کے مقاصد اور اہداف پر روشنی نہیں ڈالی۔ خصوصاً وہ اہداف جن کا ذکر ہمارے دستور کے آغاز سے لے کر ابتدائی چالیس شقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی سیاسی لیڈر یا ممبر پارلیمنٹ نے دھرنے میں شریک لوگوں کے مطالبات کو موضوع نہیں بنایا۔ اس شور شرابے کے باوجود کسی نے عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی قرار داد پیش نہیں کی۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ یہ آئین، دستور اور جمہوریت صرف اور صرف ایوان اقتدار کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ اس میں بیٹھنے والوں اور عوام سے ووٹ لیکر آنیوالوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انہیں عوام کے مسائل سے متعلق کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟ اس کا دور دور تک کوئی تصور نہیں۔ الٹا محمود خان اچکزئی اور فضل الرحمن جیسے سینئر قائدین نے شرکاء مارچ کیلئے نفرت آمیز کلمات کا استعمال کیا، انہیں گھس بیٹھیے لشکری اور خانہ بدوش کا طعنہ دیا گیا۔ حالانکہ یہ سب لوگ پاکستان کے معزز شہری ہیں۔ یہ سڑکوں پر اپنی خوشی سے نہیں بلکہ اس نظام کی ناکامی کی وجہ سے آئے ہیں۔ وہ کوئی ناجائز مطالبات نہیں کررہے بلکہ اپنے بچوں کیلئے تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی میں حکومت کو اسکی ذمہ داریاں یادکروانے آئے ہیں۔
٭پاکستان میں پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے غریب کسانوں ہاریوں اور مزدوروں کی بات کی تھی۔ عوام کا پسا ہوا وہ طبقہ روٹی، کپڑا اور مکان کی آس میں نعرے لگاتے لگاتے دنیا سے رخصت ہوچکا ہے اب ان کی اگلی نسل جوان ہوچکی ہے۔ انہوں نے بھی پاکستان کی جمہوری قوتوں کو حکومتوں میں آکر لوٹ مار کرتے اور رشوت لیکر ملازمتیں تقسیم کرتے دیکھا ہے۔ وطن عزیز کے اس طبقے میں اب محرومیوں اور مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ انکے کانوں نے دھرنے کے خطابات سے ایک نئی آس اور امید کی باتیں سنی ہیں۔ نئے پاکستان کی امید قائم ہوئی ہے اور عوامی مسائل کے حل کیلئے نئے نظام کی نوید سنائی دی ہے۔
٭الیکشن میں دھاندلیوں کے کرداروں پر اتنا کیچڑ اچھل چکا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ریٹرننگ افسر ہوگا جو ملک اور قوم کے ساتھ دوبارہ یہ کھیل کھیلنے کی جرأت کریگا۔ اسی طرح امیدوار بھی محتاط ہونگے اور سیاسی جادوگر بھی ’’پنکچر‘‘ لگانے سے ہچکچائیں گے۔ خصوصاً ن لیگ کی شہرت تو بہت ہی خراب ہوچکی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ آئندہ یہ لوگ کسی جعلی ووٹ کا رسک نہیں لیں گے۔ مگر اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ انتخابی اصلاحات کا موثر نظام کب اور کیسے نافذ العمل ہورہا ہے۔
٭لوگوں کو اب یہ سمجھ بھی آگئی ہے کہ انتخابات میں آمنے سامنے امیدوار ووٹ لیتے ہوئے ایک دوسرے کی مخالفت میں جس قدر دشمنی اور مخالفت سے کام لیتے ہیں یہ محض ’’سیاسی ڈرامہ‘‘ ہوتا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن اور PP سے زیادہ ایک دوسرے کی کس نے مخالفت کی ہوگی؟ اسی طرح کے پی کے میں اے این پی اور جے یو آئی ایک دوسرے کے ازلی دشمن سمجھے جاتے ہیں مگر پارلیمنٹ میں سب نے بیک زبان ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کیلئے اپنا ووٹ نواز شریف کو ہی دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب لوگ آپس میں جتنی بھی دشمنی کریں اپنے مفاد کیلئے پارلیمنٹ میں ایک پیج پر ہوتے ہیں۔ انکا کوئی اصول اور نظریہ نہیں صرف اقتدار میں حصہ لینا ہے اور اپنی اپنی تجوریاں بھرنی ہیں۔ اب عوام ووٹ دیتے ہوئے ایسے سیاسی اداکاروں کا حساب بھی لیں گے۔ انہیں اپنی حب الوطنی، تقویٰ، پارسائی کے دعوے کرتے ہوئے اور دوسروں کی گندگیاں اچھالتے ہوئے اب پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر آپکے مخالف اتنے ہی خطرناک لوگ ہیں تو پارلیمنٹ میں جاکر ان پر اعتماد اور ان سے محبت کی پینگیں کیونکر بڑھائی جاتی ہیں۔
٭آخر میں انقلاب اور آزادی مارچ والوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے اپنے مطالبات کو اس قدر مشکل نہ بنایا جائے کہ فریق مخالف کو راہ فرار حاصل کرنے میں آسانی مل جائے۔ سیاست میں حتمیت نہیں ہوتی ہاں ممکنہ حد تک مذاکرات کاروں سے ضمانت ضرور لی جانی چاہئے۔ ثانیاً تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اپنے مطالبات میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی رکھیں اور منظوری کی صورت میں بہر صورت ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیں اور بھرپور تیاری کیساتھ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں حصہ لے کر اپنے اپنے دعوئوں کے مطابق جمہوریت کی جڑیں مضبوط کریں۔ قوم انکے دھرنوں اور طویل جدوجہد کو فراموش نہیں کریگی بلکہ انہیں خدمت کا بھرپور موقع دینے کی کوشش کریگی۔ بشرطیکہ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں اسی طرح عوام دوست اور غریب پرور ایجنڈا لیکر آگے بڑھتی رہیں۔ بعض حکومتی ایجنسیاں اور دیگر قوتیں انہیں مل کر آگے بڑھنے سے پہلے بھی روکتی رہیں اور اب بھی خدشات گنوائے جارہے ہیں خصوصاً عمران خان کو ڈاکٹر صاحب سے دور کرنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے مگر یاد رہے برکت اتفاق میں ہی ہے انتشار اور اختلاف میں تباہی ناکامی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

ای پیپر دی نیشن