آئین شکنی کی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے، کوئی اپنے دستوری حق کو حتمی نہ سمجھے، قدغن لگ سکتی ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ کوئی معاشرہ آئین کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، عدلیہ آئین کے تابع رہے گی اور یہ بھی یقینی بنائے گی کہ ریاستی ادارے آئین کے تابع رہیں۔ کوئی شخص یا ادارہ آئین سے بالاتر نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال 2014-15ء کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ کوئی معاشرہ آئین کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، عدلیہ آئین کے تابع رہے گی، عدلیہ یہ بھی یقینی بنائے گی کہ ریاستی ادارے آئین کے تابع رہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی صورت حال میں آئین کے تحت حاصل حق کو حتمی تصور نہ کیا جائے، ضرورت پڑے تو کسی کے بھی آئینی حقوق پر بھی قدغن لگائی جا سکتی ہے، ججوں کا کام صرف آئین کے الفاظ کی تشریح کرنا نہیں، ججوں کا کام آئین شکنی کے ہر اقدام کو ناکام بنانا بھی ہے، بار بار کہہ چکے ہیں کہ کوئی آئین و قانون سے بالاتر نہیں۔ قانون کی حکمرانی تب ہی قائم رہ سکتی ہے جب عدلیہ آئین پر ایمانداری سے عمل کرے، ہرممکن کوشش کریں گے کہ سستا، فوری اور غیرجانبدار انصاف فراہم کیا جائے، ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کریںگے، حقوق اور ذمہ داریاں سکے کے دو رُخ ہیں یہ ایک دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے حقوق میں بار کا کردار بہت اہم ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ انصاف کی فراہمی میں ہرگز تاخیر نہیں کریں گے، عدلیہ کا یہ سال ملکی تاریخ اور اس عدالت کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ ہم آج گزشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، ہم نے اس آئین کو بلاخوف و خطر بچانے کی قسم کھائی ہے، ملک میں امن و امان کا قیام آئنی کے تحفظ کے بغیر ممکن نہیں، لوگوں کو انصاف، ان کا حق دلانے کیلئے مستقبل کی حکمت عملی پر غور کریں کہ جمہوری معاشروں میں حقوق و فرائض میں ایسا توازن ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے متاثر نہ ہو جائے اس ضمن میں عدلیہ کا کردار ترقی پسندانہ ہونا چاہئے تاکہ پرامن معاشرے کے قیام اور آئین سے وابستگی یقینی بنایا جا سکے۔ چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، چیف جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) خلجی عارف حسین کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہاکہ آئین کی سربلندی کے لئے ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گزشتہ عدالتی سال میں 13ہزار 872کیسز نمٹائے گئے، 17ہزار 101نئے کیسز سپریم کورٹ میں دائر ہوئے۔ سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسز کی تعداد 20ہزار سے زائد ہے۔  چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ عدلیہ آئین شکنی کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دے گی، ہم نے  بلاخوف و خطر آئین کو بچانے کی قسم کھائی ہے، آئین و قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،کوئی بھی اپنے آئینی حق کو حتمی تصور نہ کرے ضرورت پڑنے پر قدغن لگائی جا سکتی ہے، ملک میں تعمیر و ترقی اور امن و امان کا قیام آئین کے تحفظ کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم آج گزشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔آج ہم لوگوں کو انصاف اور ان کا حق دلانے کیلئے مستقبل کی حکمت عملی پر غور کریں گے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ انصاف کی فراہمی میں ہرگز تاخیر نہیں ہوگی۔ہم ہرممکن کوشش کریں گے کہ سستا ٗجلد اور غیر جانبدار انصاف فراہم کیا جائے، قانون کی حکمرانی تب ہی قائم رہ سکتی ہے جب عدلیہ آئین پر ایمانداری سے عمل کرے ۔عدلیہ کا یہ سال ملکی تاریخ اور عدلیہ کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوگا، آئین شکنی کی سازش ناکام بنانا بھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کے تابع ہیں، ریاستی اداروں کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کا عدالت خود جائزہ لے سکتی ہے۔ آئین شکنی کی سازش ناکام بنانا بھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ثناء نیوز کے ماطبق چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ یہ بات یقینی بنائے کہ تمام ادارے آئین کے تابع رہیں ضرورت پڑنے پر کسی بھی آئینی حق پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔ججز کا کام صرف آئین کے الفاظ کی تشریح کرنا نہیں ملک میں قانون کی حکمرانی تبھی قائم رہ سکتی ہے جب عدلیہ آئین پر ایمانداری سے کام کرے ۔ ہرممکن کوشش کریں گے کہ سستا، جلد اور غیر جانبدار  انصاف فراہم کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت ریاستی  اداروں کی جانب سے عوام کی آزادی  پر پابندی کا جائزہ لے سکتی ہے ۔عدلیہ نہ صرف خود آئین کے تابع رہے گی بلکہ یہ بھی یقینی بنائے گی کہ دیگر ریاستی ادارے آئین کے تابع رہیں۔ دیگر ججز نے اپنے خطاب میں ملک میں آئین قانون کی بات کرتے ہوئے عوام کو ہرممکن اور سستے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی، اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کی اپنی حدود ہیں، آئین میں دی گئی حدود سے تجاوز پر ہی تصادم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے ہر ریاستی ستون اپنی آئینی ذمہ داریاں اپنی حدود میں رہ کر پوری کرنی چاہئیں، آئنی کی حکمرانی ہر ایک پر لازم ہے، حکومت ریاست کے استحکام، گڈگورننس کی ذمہ دار ہوتی ہے، عوام کو ہرممکن بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے سب کو ساتھ لیکر چلتی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ وکلا اور عدلیہ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں، دونوں آئین کی حکمرانی اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ تقریب سے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل رمضان چودھری نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وکلا کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ایک ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایک طریقہ کار کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیں آئین کی نظر میں سب برابر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...