عالمی سطح پر یکجہتی

عالمی گلوبلزم کے حوالے سے آج مختلف سوال اٹھ رہے ہیں اور اس کو نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل قرار دیا جا رہا ہے۔ جارج شلز جیسی معتبر شخصیات کے بقول آئی ایم ایف بحیثیت مجموعی دنیا کے مفاد میں کام نہیں کر رہا۔ ڈبلیو ٹی او دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشنوں کے نمائندے کے طور پر کام کرتا ہے جو دنیا کی 0.01 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 80 فیصد پیداواری ذرائع ایک ہزار بڑی کارپوریشنوں کے کنٹرول میں ہیں۔ لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیاء بحران کا شکار رہا۔ ایتھوپیا کو قحط سالی اور ایک دنیا کو بیماریوں اور غربت کا سامنا ہے۔ ورلڈ بنک کے صدر جیمز ڈی وولفن سوہن کے بقول دنیا غربت مایوسی اور محرومیوں کا شکار ہے۔ لوگ جو کبھی حالات میں تبدیلی اور بہتری کی امید لئے ہوتے تھے، آج بالکل مایوس نظر آتے ہیں۔ آج جب ہم مالیاتی بحران کی بات کرتے ہیں تو 17 ملین انڈونیشن کا تذکرہ ناگزیر ہوتا ہے جو دوبارہ غربت کا شکار ہیں اور خطے میں ایک ملین بچے سکول نہ جا سکیں گے۔ دنیا میں ایک اعشاریہ تین بلین افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں، تین بلین لوگ حفظان صحت اور دو بلین لوگ بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں۔ المختصر جکارتہ، ماسکو، برصغیر ہند و پاک کی کچی بستیاں ہوں یا افریقہ اور لاطینی امریکہ کے پسماندہ علاقے، ہمارے اردگرد ہر جگہ انسان غربت کے اندھیروں میں گھرا مصائب میں مبتلا ہے۔
معاشرتی یکجہتی:
تمام تر ابتلا اور مصائب کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے ایک عالمی اقتصادی اور معاشرتی سسٹم کی طرف بڑھ رہے ہیں جو صحرا اور ویرانے میں چیخ و پکار کی سعی لاحاصل سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ عالمی بنک کے چیف اکنامسٹ پروفیسر جوزف اینگلر نے حال ہی میں عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین کے بارے کہا کہ یہ فرسٹ کلاس یونیورسٹیوں کے تھرڈ کلاس طالب علموں کا ٹولہ ہے۔ جنہیں اور کہیں ملازمت نہیں ملی۔ ان کی مہارت پنج ستارہ ہوٹلوں کی رپورٹیں تیار کرنے تک محدود ہے، انہیں دیہات اور قصبوں میں رہنے والوں اور عام آدمی کی زندگی اور مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ عالمی بنک کی اپنی رپورٹوں کے مطابق عالمی مالیاتی اداروں کے تیار کردہ منصوبے بیشتر صورتوں میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، حال ہی میں ایک سفارش سامنے آئی ہے جس کا اکثر و بیشتر اعادہ ہوتا ہے یہ پاکستان میں کچھ صنعتیں بند کرنے کے بارے میں ہے جس میں سٹیل، فرٹیلائزرز، شوگر، کیمیکل، آٹو موبائل انجینئرنگ جیسی صنعتیں بند کر کے صرف سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کو باقی رکھنے کی بات کی جاتی ہے جو خود سبسڈی کی محتاج ہیں۔ یہ نسخہ خاصا تعجب خیز ہے۔ اس طرح کی سفارشات قبول کرنے کا مطلب ہو گا کہ ملک میں کسی صنعت کا وجود ہی باقی نہ رہنے دیا جائے اور یہ ملک ماضی کی ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے مغرب اور ترقی یافتہ ملکوں کیلئے خام مال کی پیداواری منڈی بن کر رہ جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس سے ملک میں ہزاروں یونٹ بند ہونے سے ملک میں بے روزگاری پھیلے گی اور اربوں کی سرمایہ کاری دائو پر لگ جائے گی تو خود انحصاری کا خواب کیونکر پورا ہو سکے گا؟ ضروری ہے کہ اپنے قومی مفادات کی روشنی میں اپنی ترجیحات کو عالمی یکجہتی کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
ستم ظریفی ہے کہ عالمی ادارے اور تنظیمیں زمینی حقائق کے مقابلے میں نصابی تھیوریز تو زیادہ معتبر جانتی اور ان پر انحصار کرتی ہیں۔ انسانی حقوق بشمول خواتین اور چائلڈ لیبر، ہیلتھ کیئر تعلیم اور پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن ایک حقیقی دنیا میں حقیقی معنوں میں اقتصادی خوشحالی اور نمو حاصل کرنے کا اہم اور بنیادی نقطہ فراموش کر دیا جاتا ہے بیمار اور پسماندہ ملکوں کے درمیان واقع، خلیج ابھی تک کم نہیں کی جا سکی اور نہ کھلی مارکیٹ میں پسماندہ ملکوں کو امیر ملکوں کے برابر آسانیاں فراہم ہو سکی ہیں۔ ترقی پذیر ملک آج بھی بدستور سرمائے کی کمی کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ ان کے ہاں نہ کوئی مناسب انڈسٹری ہے اور نہ ضروری اور مناسب ٹیکنالوجی اور نہ کوئی ایسی مصنوعات ہیں کہ جن کی بنیاد پر منافع کمایا جا سکے۔ اس طرح اس کا حل اقتصادی یکجہتی ہی بنے گی جسے پسماندہ اور سرمائے کی کمی سے دو چار ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی امداد اور تعاون سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ امیر اور غریب ملکوں کو باہم مل کر ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنی اور معاشرے کے تمام لوگوں کی بہتری اور فلاح کیلئے نئے افق تلاش کرنا ہوں گے لوگ خواہ مشرق میں رہنے والے ہوں یا مغرب، یورپ، روس، لاطینی امریکہ یا ایشیاء میں… تمام مل کر عالمی اقتصادی یکجہتی کی بنیاد ہوں گے۔ اس سے آخر کار اقتصادی ترقی ہوگی اور دنیا میں امن اور خوشحالی آئے گی جس سے لوگ مستفید ہوں گے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں بستے ہوں۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن