بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے بڑا سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام ہے۔ یہ ایک منفرد انداز سے کام کرنیوالا پبلک سیکٹر پروگرام ہے جس سے ملک کے سوشل پروٹیکشن کے شعبے میں تبدیلی میں مدد ملی ہے۔ یہ ادارہ سال 2008 میں قائم کیا گیا، اس ادارے کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی یہ ہے کہ اس ادارے نے سال 2010-11میں پراکسی مینز ٹیسٹ کو استعمال کرتے ہوئے مستحق گھرانوں کی نشاندہی کرنے کا نظام تشکیل دیا ، جس کی بدولت جنوبی ایشیاء میں پہلی مرتبہ27ملین گھرانوں (تقریبا : 170 ملین افراد) کے اعدادو شمار پر مبنی قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری (NSER)وجود میں آئی ۔ وفاقی و صوبائی حکومتی تعاون کیساتھ غریب افراد کی نشاندہی اور ان تک رسائی کیلئے سماجی اخراجات میں بہتری لانے کیلئے تمام وفاقی اکائیوں کی جانب سے NSERکو ایک قومی پلیٹ فارم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کی مستحق افراد کی نشاندہی کرنے کی کارکردگی کا موازنہ دنیا بھر میں اس نوعیت کے دیگر بہترین پروگراموں سے کیا جاتا ہے اور اسکے نصف مستحقین کا تعلق آبادی کے نچلے 20%طبقے سے ہے۔ (گراف ملاحظہ فرمائیں)۔ اس وقت ، 38سے زائد وفاقی اور صوبائی تنظیمیں اپنے متعلقہ سوشل سیکٹر پروگراموں میں غریب افراد کی بہتری کیلئے اس رجسٹری کو استعمال کررہی ہیں۔ بی آئی ایس پی نے حال ہی میں NSERاپڈیٹ کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد اس رجسٹری کو ایک متحرک رجسٹری میں تبدیل کرنا ہے تاکہ اس رجسٹری کو ملک کے گھرانوں کی سماجی واقتصادی حیثیت کے حوالے سے ایک قابل اعتماد اعداد وشمار کی رجسٹری بنایا جاسکے۔
ابتدائی دنوں کے دوران ، غریب خاندانوں کے اعدادوشمار کی عدم موجودگی میں بی آئی ایس پی نے مستحقین کی نشاندہی کیلئے پارلیمانی نظام کو اپنایا تھا۔ اس نظام کے تحت اراکین قومی اسمبلی/اراکین صوبائی اسمبلی /سینیٹرز کو انکے حلقوں میں غریبوں کی شناخت کیلئے فارمز تقسیم کئے گئے اور نادرا کی تصدیق کے بعد ان افراد کو بی آئی ایس پی کے وظائف کیلئے اہل قرار دیا گیا۔ تاہم، غریب افراد کی نشاندہی اور ان تک رسائی حاصل کرنے کا یہ طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے برعکس تھا۔لہذا، بی آئی ایس پی نے عالمی بینک اور ڈی ایف آئی ڈی کی تکنیکی معاونت سے مستحق گھرانوں کی نشاندہی کیلئے ایک قابل اعتماد طریقہ کار اپنانے کا فیصلہ کیا اورسال 2010-11 کے دوران ملک گیر گھر گھر مردم شماری کے ذریعے مستحق گھرانوںکی سماجی و اقتصادی حیثیت پر مبنی اعدادو شمار اکھٹے کئے جو پاکستان کی پہلی NSERکا باعث بنے۔ سال 2007-08میں Household Integrated Economic Survey (HIES) سے صرف ان سماجی و اقتصادی اعدادوشمار کا انتخاب کیا گیا جو نمایاں طور پر گھرانوں کے بنیادی اخراجات سے مطابقت رکھتے تھے۔ ان میں گھریلو اور انفرادی خصوصیات شامل تھیں، جیسا کہ خاندان کے اراکین اور وابستگان کی تعداد، انکا تعلیمی معیار، پائیدار اشیاء کی ملکیت، مکان کی خصوصیات اور پیداواری اثاثوں کی ملکیت، خصوصا اراضی کی ملکیت، مویشی اور زرعی آلات اور دیگر اشیاء وغیرہ۔ گھرانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق معیار کا اندازہ لگانے کے اس طریقہ کار کو پراکسی مینز ٹیسٹ (PMT)کہا جاتا ہے جسے مستحقین کی نشاندہی کیلئے دنیابھر میں سیفٹی نیٹ پروگرامز استعمال کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کا اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ محدود معلومات کے استعمال سے گھرانے کے فلاحی معیار کی قابل اعتماد پیمائش کا سادہ اور سستا طریقہ ہے جسے ایک آسان سوالنامے، شفافیت، جانبداری اور تصدیق سے حاصل کیا جاتا ہے۔
PMT فارمولے نے ایک عرصے سے اچھے نتائج فراہم کئے ہیں۔ ابتدائی طور پر 2007-08 HIESکو استعمال کرتے ہوئے اسکی کارکردگی کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ اس وقت یہ توقع کی جارہی تھی کہ یہ پروگرام 40%غریب ترین آبادی کا احاطہ کریگا۔ یہ بھی توقع کی گئی تھی کہ 60%مستحقین کا تعلق غریب ترین آبادی سے ہوگا- ایک ایسی کارکردگی جو اس نوعیت کے معروف PMTپروگراموں کی ہوتی ہے۔ سال 2010-11 HIESکا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے PMT فامولے کا دوبارہ تعین کیا گیا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بی آئی ایس پی کا PMTغریب افراد کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی مستحق افراد کی نشاندہی سے متعلق کارکردگی بہت عمدہ ہے۔ ڈیزائن کے مطابق بی آئی ایس پی کی مستحق افراد کی نشاندہی کی عملی کارکردگی متوقع کارکردگی سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ 2013-14 HIES کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی آئی ایس پی کے 48% مستحقین کا تعلق غریب ترین آبادی سے ہے ، اور 75% مستحقین کا تعلق آبادی کے نچلے 40% طبقے سے ہے۔ بی آئی ایس پی کی مستحق افراد کی نشاندہی کی کارکردگی اس نوعیت کے دیگر پروگراموں برازیل کے بولسا فیمیلیا، میکسیکو کے پروسپرا اور فلپائن کے 4Pسے مقابلہ کرتی ہے۔
عالمی معیار کے اصولوںکے مطابق چارسے پانچ سال بعدڈیٹاکو اپڈیٹ کرنے کیلئے دوبارہ سروے کیا جاتا ہے۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بی آئی ایس پی بورڈ نے 2015 میں قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری (NSER ) کواپ ڈیٹ کرنے کی تجویز دی اور بعد ازاں حکومت پاکستان نے15 اضلاع اور ایک فاٹا ایجنسی میںآزمائشی بنیادوں پر سروے کے اجراء کی منظوری دی جو کہ جون 2016 سے شروع کیا جا چکا ہے۔ قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری ( NSER ) کو اپ ڈیٹ کرنا کے بہت سے عوامل تھے ۔ خاص طو ر پر ،گزشتہ سالوں میں پاکستان کو سماجی و اقتصادی بنیادوں پر بہت سی تبدیلیوں کا سامنا رہاہے جس نے ممکنہ طور پر زیادہ گھرانوں کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ اسی طرح بتدریج بڑھتے ہوئے مسائل ، غربت زدہ علاقوں میں بار بار آنے والی قدرتی آفات اور مختلف تنازعات اور ملک میں جاری عدم تحفظ کی وجہ سے بڑی نقل مکانی دیکھنے میں آئی ہے جس نے بہت سے گھرانوںکو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ موجودہ NSERکی جامد نوعیت کو دیکھتے ہوئے ، گھرانوں کی سماجی و اقتصادی خصوصیات اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اب ضروری ہو گیا ہے کہ موجودہ فائدہ اٹھانے والوں کی حیثیت کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور نئے گھرانوں کی شناخت کی جائے جو کہ پروگرا م کی شرائط پر پورا اترتے ہیں لیکن فی الحال پروگرام سے استفادہ نہیں کر رہے ہیں۔بی آئی ایس پی نے رجسٹری اپ ڈیٹ کے عمل کی رہنمائی کیلئے ایک انتہائی شراکتی عمل اپنایا اور اپ ڈیٹ کے عمل کی رہنمائی کیلئے تکنیکی کمیٹی کے طور پر ایک مشاورتی کمیٹی قائم کی ہے۔ کمیٹی صوبائی نمائندوں ، ماہرین اقصادیات ، غربت کے ماہرین اور سول سوسائٹی پر مشتمل ہے۔ اس ملک گیر سروے کو بین الاقوامی اصولوں کی بنیاد پر مکمل کرنے کیلئے عالمی بینک بی آئی ایس پی کو تکنیکی ، آپریشنل اور مالی امدادکی فراہمی کے ساتھ ساتھ 2013-14 میں ہونیوالے گھریلو مربوط اقتصادی سروے (HIES) کا استعمال کرتے ہوئے PMTفارمولے پر نظر ثانی، ہدف بندی کے آلہ (غربت اسکور کارڈ ) کو بہتر بنانے اور سروے میں بہتری کیلئے معاونت فراہم کر رہا ہے۔ازخود رجسٹریشن (ڈیسک نقطہ نظر Desk approach) او ر گھر گھر سروے دونوں طریقہ کار کے بارے میں اخراجات کا اندازہ لگانے میںبھی عالمی بینک کی معاونت بی آئی ایس پی کوحاصل ہے۔
پچھلا سروے کاغذ کی بنیاد پر کیا گیا تھا جبکہ موجوداپ ڈیٹ CAPI((Computer assisted personal interview کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے جو کہ انسانی غلطیوں کو کم اور ڈیٹا پروسیسنگ کو آسان بنائے گا۔ 2018کے آغاز میںملک گیر سروے کے مکمل ہونے پرموجودہ NSER کو ایک متحرک رجسٹری میں تبدیل کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ ایک قومی اثاثہ ہے۔
پاکستانیوں کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ NSER بی آئی ایس پی سے بڑا ایک قومی اثاثہ ہے ۔ دراصل بی آئی ایس پی اس کا سب سے بڑا صارف اور نگران ہے۔ یہ انتہائی غریب گھرانوں کی حالت کے علاوہ ملکی سطح پر گھرانوں کا تجزیہ ہے۔ گزشتہ سروے میںنہ صرف 16.17کے کٹ آف پوائنٹ تک غریب گھرانو ں کا سروے کیا گیا تھا بلکہ100کٹ آف پوائنٹ تک سروے کو مکمل کیا گیا جس سے آبادی کے بڑے حصے نے سروے میں شمولیت کی اور اپنے ڈیٹا کا سروے میں اندراج کروایا۔2010-11کے عالمی طور پر کامیاب سروے کے انعقاد کے بعد مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے بی آئی ایس پی کو یہ مینڈیٹ دیا ہے کہ بی آئی ایس پی دوبارہ ملک گیر سروے کروائے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت ، وزیراعظم اور وزیرخزانہ توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اس سروے میں پہلی پوزیشن حاصل کریگا۔ اسکے علاوہ توقع ہے کہ ملک کے اند ر NSER سب کی ضروریات کو پورا کریگا۔ اس سروے کا مقصد پاکستان میں حکومتی اور نجی شعبے کوان علاقوں اور آبادی کے متعلق معلومات فراہم کرنا ہے جو اشیا ء خوردونوش اور عوامی خدمات کیلئے منتظر ہیں۔ یہNSERسارے پاکستان کیلئے ہے ، اس کو بیان کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ''ہم ہیں پاکستان''۔یہ سروے حکومت کو درپیش غرباء کی شناخت اورغربت کے چیلنج سے نمٹنے کے سلسلے میں ایک حل ہے ، اس سروے کی بدولت نہ صرف غربت کو بہتر انداز میںکم کیا جا سکے گا ۔ NSERکی کامیابی کیلئے پاکستان کے تمام لوگوں کو اس میں شرکت کرنی چائیے جب یہ سروے انکے ضلع ،شہر یا گائوں میں شروع ہو۔ہم آپ پر بھروسہ کر رہے ہیں کہ آپ NSERکا حصہ بن کر پاکستان کی ترقی میں حصہ دار بنیں گے۔
سماجی و اقتصادی رجسٹری … ایک قومی اثاثہ
Sep 09, 2016