کمزور اپوزیشن آمرانہ جمہوریت کی ابتدا ہوسکتی ہے

ایک دیوانے نے ایک چمکیلی صبح چراغ روشن کیا اور بازار پہنچ کر چلانے لگا میں خدا کو تلاش کر رہا ہوں۔ گرد و پیش کھڑے ہوئے لوگ قہقہے لگانے لگے کیا تم نے اسے کھو دیا ہے ؟ کہیں تم خوف زدہ تو نہیں کہ وہ کہیں چھپ گیا ہے ؟ کیا وہ کسی دور دراز مقام کو ہجرت کر گیا ہے ؟ لوگ ہنسنے لگے اور آوازے کسنے لگے۔ اس پر دیوانہ جھپٹ کر انکے درمیان پہنچا اور انہیں گھورتے ہوئے چلایا ‘ہم نے اسے ناراض کر دیا ہے تم نے اور میں نے ‘ ہم سب نے ‘ دیوانہ اسکے بعد زار و قطار روتے ہوئے بتانے لگا لیکن ہم نے یہ کیونکر کیا۔ سمندر کو جذب کرنے کے قابل ہم کیونکر ہوئے ؟ کس نے ہمیں اسفنچ دیا کہ ہم سارے جہانوں کو خشک کر ڈالیں؟ ہم کس راہ پر گامزن ہیں ؟ ہم مسلسل زوال پذیر ہیں ؟ کیا کوئی نفع و نقصان رہا ہے ؟ کیا ہم لامتناہی راستے کے مسافر ہیں ؟ کیا ہم کھوکھلی فضائے بسیط کے سانس کو محسوس نہیں کرتے کیا یہ سرد ترین ہوگئی ہے؟ شب کے اندھیرے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ؟ کیا صبحوں کو چراغ روشن نہیں کرنا چاہئیں۔دیوانے کا یہ سوال تو نطشے نے کیا تھا ‘ مگر ہمارے ملک میں بھی ایسا وقت آ چکا ہے کہ جب یہ سوچنا ضروری ہوگیا کہ ہم خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا شکار تو نہیں ہیں ایک طرف تو سمندر کو جذب کرنیوالا اسفنچ کو لوگوں کے ہاتھوں میں دیدیا گیا ہے جس کی وجہ سے اصل میں ہم زوال پذیر ہو رہے ہیں اور بظاہر آنکھیں کو خیرہ کر دینے والی ترقی ہو رہی ہے۔ ایک کھوکھلی فضائے بسیط کے سرد سانس کو بھی ابھی محسوس نہیں کیا جا رہا جو ایک طرف غریبوں کے لاشے بنا رہی ہے اور دوسری طرف اس ملک کی سلامتی کی حفاظت میں لوگ جانیں دے رہے ہیں اور شاید دیوانے کی بات کی طرح صبح کے روشن چمکیلے سویروں میں چراغ جلانے کی ضرورت آ پڑی ہے اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ جمہوریت لولی لنگڑی یا جیسی بھی ہو کی خواہش میں ایسی ہو چکی ہے کہ ہر جگہ تنزلی دکھائی دے رہی ہے اور ملک کے بہت سارے اہم اداروں پر ایسے لوگ مسلط کر دئیے گئے ہیں جو صاحب کردار نہیں ہیں۔ ملک کی صورتحال یہ ہے کہ جیسے ٹوٹی پھوٹی کھوکھلی عمارت کو رنگ برنگے رنگ و روغن سے سجا کر رنگین شیشوں سے آویزاں کر دیا جائے اور اندر سے بوسیدہ عمارت بظاہر لشکارے مارتی نظر آنے لگے۔ چونکہ ملک کو ’’انڈسٹریل سٹیٹ‘‘ ملک بنا دیا گیا ہے لہذا یہاں دو طرح کے لوگ سامنے موجود ہیں ایک وہ جن کی چھوٹی بڑی صنعتیں ہیں اور وہ مالکان ہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو انکے ملازمین ہیں اس لئے حق سچ کی بات کرنے کے قابل بہت ساری عوام اب نہیں رہی۔ ایک اور صورتحال یہ ہے کہ وہ نااہل لوگ جنہیں اداروں کا سربراہ بنا دیا گیا ہے انہوں نے اپنے من پسند افراد بھرتی کر لئے ہیں لہذا یہاں بھی بولنے والا کوئی نہیں ہے اور اب باقی بچ گئی غریب عوام تو ان میں سے کچھ لوگ اتنے غریب ہو چکے ہیں کہ چند سکوں کے عوض ووٹ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ان غریب لوگوںمیں جو کچھ خوش حال دیہاتی ہیں وہ برادری ازم میں یعنی جنہیں باپ دادا کے زمانے سے ووٹ دیتے آ رہے ہیں انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں تاکہ انکے کورٹ کچہری کے مسئلوں یا دیگر چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں مدد ملتی رہی اور وہ ذہنی طور پر پرسکون زندگی گزاریں۔ اب سارے سسٹم میں ملک کی ترقی اور جمہوریت کا وہ پھل جو ایک عام شخص کی دہلیز تک جانا تھا وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا اور اس سارے سسٹم کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت Over confident ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر عمران خان ڈیپریس ہو رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی والے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اپنی جماعت کے اندر کے معاملات کو درست کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے کردار کے کھل جانے کے بعد کراچی میں فاروق ستار نے بڑی عقل مندی سے حالات کو سنبھال لیا۔ دو دن قبل چترال کے ایک جلسہ میں محترم وزیراعظم نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں نوٹس نہیں لیتا ‘ عوام خود مخالفین کو جواب دے رہی ہے‘‘ حالانکہ سچ یہ ہے کہ حکومت کو خود نوٹس لینا چاہئے اور اپوزیشن کی بیان کی گئی باتوں کے حل تلاش کرنے چاہئیں ورنہ پھر ایسا ہی ہو گا کہ ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ سامنے آئیگی کہ جو کہ دراصل آمریت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستانی عوام اس وقت کنفیوژڈ ہے اور اس نقطے کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس ملک میں لوگوں کی ابھی ذہنی اور سیاسی تربیت ہونے کی مزید ضرورت ہے اور اسی خلاء کی وجہ سے یہ ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ کے مارشل لاء آنے میں خود لیڈروں اور عوام کا قصور ہوتا ہے جو جمہوری لیڈروں کو اور عوام کے منتخب کردہ لیڈروں کو ’’سخت زبان‘ دو ٹوک الفاظ اور من مانی کرنے پر اکسا دیتے ہیں۔ عمران خان کی غلطیاں بھی حالات کو بگاڑنے میں اور جمہوریت کو آمرانہ جمہوریت بنانے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔ہم جناب طاہر القادری کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ کسی یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کی طرح پاکستان آتے جاتے ہیں لہذا ان کی شخصیت کی جڑیں انکے اداروں تک تو ہیں مگر عوام کے دلوں تک نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ میں نے الطاف حسین کی تقریروں پر کئی مرتبہ لکھا تھا کہ وہ اتنے جذباتی ہو کر تقریر کرتے ہیں کہ جذبات کی شدت میں الفاظ غائب ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی بحیثیت خطیب تو ٹھیک ہیں لیکن جلسہ گاہ میں جذباتی ہو کر تقریر کرتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے لیڈر بردبار اور تحمل مزاج ہوتے ہیں۔ ایران میں انقلاب برپا کرنیوالے آیت اﷲ خمینی کو دیکھ لیں۔ کیسی جمی ہوئی مضبوط شخصیت کے حامل تھے۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے سفر کی ابتداء تنہا نہیں کرتے بلکہ دو شہروں میں ایک ساتھ اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ آغاز کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی بڑی تحریکیں ڈرائنگ رومز اور بیٹھکوں سے نکل کر آگے بڑھتی تھی ان میں نظریہ کی پختگی ہوتی تھی۔ عمران خان کے لفظ تبدیلی اور نیا پاکستان کے پیچھے نوجوان اور عوام آئے تھے مگر پھر اچانک انہوں نے نظریاتی کمزوری اختیار کر کے نجی زندگی کے فیصلوں کو جلسہ گاہوں کی زینت بنا دیا اور اپنی تحریک سمیت عوام کو بھی دلبرداشتہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران کو بڑے بڑے جلسوں کیلئے اب پھر سے تیاری کرنے کی ضرورت آ پڑی جس طرح اتنی مضبوط حکومت کہ جس کے سامنے اپوزیشن کی اہمیت نہ ہو آمرانہ انداز کی ہو جاتی ہے اور ملک کو نقصان ہوتا ہے بالکل اسی طرح اپوزیشن کا غیر ذمہ دارانہ کردار بھی ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آجکل کے اس سارے ماحول میں ملک کے اندر بھارت دشمنی کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے آواز بلند کرنے کا بھی یہی وقت ہے۔ دو روز قبل یوم دفاع کا موقع ایسا تھا کہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا وزیراعظم کی اولین ذمہ داری تھی ‘ اسکے بعد وہ چاہتے جلسے جلوس کی سرگرمیوں میں شامل ہو سکتے تھے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جس قدر ہمیں دشمن سے خطرہ ہے اسی قدر ہمیں اپنے اندرونی معاملات سنبھالنے اور اداروں کو بھی تباہی سے بچانے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ایسا اسفنچ نہیں دینا چاہئے کہ وہ سمندر کو بھی خشک کر ڈالیں اور پاکستان سے محبت کرنیوالے دیوانوں کے سامنے کچھ لوگ ہنستے مسکراتے اور مذاق بناتے رہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...