پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جہانگیر خان ترین نے کہا ہے مجھ پر لگائے گئے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ میری کسی کمپنی نے کبھی قرضہ معاف نہیں کرایا‘ جن دو کمپنیوں کی بات ہو رہی ہے وہ ہارون اختر خان کی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ذاتی وضاحت پر جہانگیر خان ترین نے کہا کہ شوکاز نوٹس اور خط میں فرق ہوتا ہے۔ مجھ پر لگائے گئے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میری کسی کمپنی نے کبھی قرضہ معاف نہیں کرایا‘ جن دو کمپنیوں کی بات ہو رہی ہے وہ ہارون اختر خان کی ہیں۔ ایک کمپنی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی غیر قانونی کام کرے وہ غیر قانونی ہوگا، میں اپنے حق میں ہر فورم پر بات کروں گا۔ سپیکر نے میرے خلاف غلط ریفرنس بھجوایا ہے۔ انہوں نے کہا آج تک نادہندہ نہیں ہوں۔ قرض معاف نہیں کرایا، ٹیکس چوری کے الزام پر حکومت میری تمام فائلیں دیکھ چکی ہے۔ میرے ساتھ ذاتی دشمنی اس لئے ہے کہ میری اور میاں صاحب کی شوگر ملیں ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ جہانگیر ترین کو بولنے دیں روک ٹوک نہ کریں۔ سپیکر کے روئیے کیخلاف تحریک انصاف کے ارکان نے نے واک آﺅٹ کیا۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا مجھے موصول ہونے والے ریفرنسز پر میں نے اپنی عقل کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی عقل کی بنیاد پر فیصلہ دیا۔ جو سوالات اٹھائے گئے تھے اس کی بنیاد پر الیکشن کمشن کو ریفرنس بھجوایا گیا ہے جس کا فیصلہ 90 دنوں میں انہوں نے کرنا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے عمران خان کو بھی موقع دیا ہے اور وہ خود اسی لئے چیمبر میں اٹھ کر چلے گئے تاکہ ان کے منہ سے کوئی بات نہ نکل جائے۔ ایوان میں قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے لئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی پانچ رکنی کمیٹی کی رپورٹ پیش کردی گئی‘ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پی کے میں شامل کردیا جائے‘ ایف سی آر کا قانون ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ مقامی رسومات و رواج پر مبنی ”رواج ایکٹ“ نافذ کیا جائے‘ سول و فوجداری امور کے لئے جرگہ نظام کو برقرار رکھا جائے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک بڑھا دیا جائے‘ 31دسمبر تک تمام متاثرین کی واپسی یقینی بنائی جائے‘ تعمیر نو کا منصوبہ 2018 تک مکمل کیا جائے‘ 2017 میں فاٹا میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرادیئے جائیں۔ جمعہ کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز‘ وفاقی وزیر برائے ریاستیں و سرحدی امور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ‘ فاٹا ارکان کے لیڈر شاہ جی گل آفریدی‘ حاجی غلام احمد بلور‘ صاحبزادہ طارق اﷲ‘ آفتاب خان شیرپاﺅ‘ نوید قمر‘ شہریار آفریدی اور کیپٹن (ر) صفدر نے رپورٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف‘ فاٹا اصلاحات کمیٹی اور عوام کو فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی رپورٹ پر خراج تحسین پیش کیا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ آئین کا تقاضا تھا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ کمیٹی نے چھ ماہ فاٹا میں دورے کئے اور وہاں سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں‘سول سوسائٹی‘ طلبائ‘ قبائلی عمائدین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے وسیع مشاورت کی۔ فاٹا کی سات ایجنسیوں اور ایف آرز کے دورے کئے گئے مشاورت وسیع اور مفید رہی۔ فاٹا کے لئے چار آپشن سامنے تھے جن میں فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا‘ موجودہ حیثیت کو بحال رکھنا‘ خیبر پی کے میں ضم کرنا یا گلگت بلتستان کی طرز پر سیٹ اپ بنانا شامل تھا۔ علیحدہ صوبہ بنانا مشکل تھا اور سٹیٹس کو بھی کوئی حل نہیں تھا۔ مشاورت کے بعد کمیٹی نے سفارشات تیار کی اور یہ تجویز دی کہ فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کیا جائے۔ فاٹا کو صوبہ خیبر پی کے کے برابر لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ آئی ڈی پیز کی واپسی اور آباد کاری‘ تعمیر نو کی جائے بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں سکیورٹی نظام بہتر کیا جائے۔ فاٹا کی حیثیت کے بارے سفارشات پارلیمنٹ سے منظور ہوں گی۔ فاٹا رکن شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے لئے اصلاحات پر وزیراعظم اور فاٹا کمیٹی کے شکر گزار ہیں۔ قائد اعظمؒ کے بعد وزیراعظم کا پاکستانی عوام پر احسان ہے آج دو ریاستوں سے ایک ریاست بننے پاکستان جارہا ہے ان سفارشات پر جلد از جلد عمل کیاجائے آج تک کسی قبائلی نے پاکستان مردہ باد نہیں کہا نہ کبھی پاکستان کا جھنڈا جلایا۔ غلام احمد بلور نے کہا کہ فاٹا اصلاحات بارے رپورٹ پیش ہونے پر وزیراعظم ‘ سرتاج عزیز‘ فاٹا کمیٹی سمیت پوری قوم بالخصوص کے پی اور فاٹا کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسے تاخیر کا شکار نہ بنایا جائے اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔ نوید قمر نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے لئے تمام جماعتوں کی حمایت تھی ایف سی آر کا خاتمہ خوش آئند ہے عمل درآمد کا عرصہ کم ہونا چاہئے۔ وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ فاٹا اصلاحات میں ایف سی آر کے کالے قانون کو ختم کرکے اس کی جگہ رسم و رواج پر مبنی نیا قانون لانے‘ 2017ءمیں یہاں بلدیاتی انتخابات کرانے‘ فاٹا میں اشیاءخوردونوش پر عائد ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کی ہے‘ پانچ سال کے دوران 500 ارب روپے کی خطیر رقم ترقیاتی کاموں میں صرف کی جائے گی‘ 5 سال بعد فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کیا جائے گا‘ 31 دسمبر 2016ءتک نقل مکانی کرنے والا ہر فرد اپنے گھر کو واپس جائے گا۔ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی خالد کنور نوید، رشید گوڈیل اور خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم نوازشریف کے پاس جا کر ان سے ملاقات کی۔ بعدازاں اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان نے وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں بات کرنے کی کوشش کی مگر سپیکر ایاز صادق نے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔ ایم کیو ایم کے رکن خالد مقبول صدیقی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں بھی انصاف دیا جائے۔ انصاف کے بغیر امن عارضی ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہمارے کارکنوں کو اٹھایا جا رہا ہے ہم اےوان سے واک آﺅٹ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے ارکان ایوان سے باہر چلے گئے۔