اسلام آباد (خبر نگار خصو صی )پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ و زارت داخلہ نے 2008-09 میں وزارت داخلہ میں ممنوعہ بور اسلحہ لائسنس کی فیس کے لیے وصول کی گی رقم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے جمعہ کو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر کمیٹی شفقت محمود کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت داخلہ اور وزارت تجارت کے مالی سال 2010-11 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری تجارت محمد یونس ڈاگا نے کمیٹی کو بتایا کہ بیرون ملک اراضی کی خریداری میں بھی بدعنوانی ہوئی ہے جو اراضی 2008-09 میں خریدی گئی اس کی مالیت آج بھی اس سے کہیں کم ہے۔ کمیٹی نے این آئی سی ایل کو تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی اور اس معاملے کو ون پوائنٹ ایجنڈا کے طور پر کمیٹی کے اگلے اجلاس میں زیر بحث لایا جائے گا۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتا یا گیا کہ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے پیپرا قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں روپے کی اراضی کی خریداری اور خلاف قواعد ملازمتوں پر بھرتیوں سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا، اراضی اندرون اور بیرون ملک خریدی گئیں ۔کمیٹی نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیب اور این آئی سی ایل سے تفصیلات طلب کر لیں۔ کمیٹی نے کہا کہ این آئی سی ایل میں بھی ای او بی آئی کی طرح بے ضابطگیاں ہو رہی ہیں، اس معاملے کو ون پوائنٹ ایجنڈا کے طور پر کمیٹی کے اگلے اجلاس میں زیر بحث لایا جائے گا۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ وزارت داخلہ نے 2008-09 میں ممنوعہ بور کے 28527 اسلحہ لائسنس جاری کئے جس کی مالیت 21کروڑ 39لاکھ سے زائد تھی۔ غیر ممنوعہ بور کے بھی 60ہزار سے زائد اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے جس میں 30کروڑ سے زائد رقم وصول کی، ریکارڈ کی تصدیق بھی نہیں کروائی گئی۔ وزارت داخلہ نے جواب دیا جو سیکشن آفیسر اس میں ملوث تھا اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ 9کروڑ روپے کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے جس کی خورد برد میں سیکشن آفیسر ملوث پایا گیا۔ سیکرٹریوزارت داخلہ ارشد مرزا نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدعنوانی کا معاملہ ہے،کمیٹی وقت فراہم کرے اس پر مزید محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔ اجلاس میں پنجاب رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سپاہیوں کے ویلفیئر فنڈ کے حوالے سے کہا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان ویلفیئر فنڈ کا آڈٹ نہیں کرسکتا کیونکہ ویلفیئر فنڈ کا آڈٹ اندرونی طور پر کیا جاتا ہے۔ اس معاملے پر آڈیٹر جنرل سے قواعد طے کرنے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ وزارت تجارت کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے پیپرا قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں روپے کی اراضی خریدی۔ خلاف قواعد ملازمتوں پر بھرتیاں کی گئیں اور اس بے ضابطگی میں ملوث افراد کو بعدازاںان کی نوکریوں پر بھی بحال کیا گیا۔ وزارت تجارت نے اس معاملے پر جواب دیا کہ ان میں ملوث لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف نیب میں کیس چل رہا ہے۔ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ این آئی سی ایل کے سابق سربراہ ایاز نیازی سمیت اس وقت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوید زیدی‘ اعجاز شیخ‘ اطہر نقوی‘ زاہد حسین‘ ظہور اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ کمیٹی نے اس معاملے میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ریکوری کو یقینی بنایا جائے جو نیب میں کیس چل رہے ہیں ان کی پیروی کے حوالے سے تفصیلات بھی کمیٹی میں پیش کی جائیں۔ آڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ لاہور اور کراچی میں بھی خلاف ضابطہ مختلف جگہوں پر اراضی کی خریداری میں اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جس میں سابق سربراہ این آئی سی ایل ایاز نیازی اور محسن حبیب وڑائچ ملوث ہیں۔ دونوں اس وقت ملک سے باہر ہیں۔ کمیٹی نے ان کیسوں سے متعلق نیب سے تفصیلی بریفنگ مانگ لی۔
ذیلی کمیٹی پی اے سی