طالبان کیخلاف پاکستان کی ضرورت ہے، افغانستان کی امداد ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے سے مشروط کی جائے: امریکی رکن کانگرس

 امریکی قانون ساز نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی امداد کو ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے مشروط کرنے کی ضرورت ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ رکن بریڈ شرمین نے جنوبی ایشیا میں امریکا کا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے ہونے والی ایک سماعت میں افغانستان کی امداد کو مشروط کرنے کا مطالبہ کیا۔ بریڈ شرمین عموما پاکستان کی جانب سخت رویہ رکھتے ہیں جبکہ یہ پہلا موقع ہے جب خارجہ امور ہاس کی ذیلی کمیٹی میں کسی قانون ساز نے ایسی تجویز پیش کی۔اس بریڈ شیرمین نے وضاحت دی کہ مجھے اندازہ ہے کہ ایسا کرنا مشکل ہے، وہ کہیں گے ایسا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرکے پاکستانی علاقوں پر دعوی کرتا رہے گا، پاکستان کو شامل کرنا بہت مشکل ہوگا، اور ہمیں افغان طالبان پر کنٹرول کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ 2430 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے جو 1896 میں قائم ہوئی تھی، تاہم افغانستان اسے تسلیم نہیں کرتا اور اکثر بھارت بھی افغانستان کے اس دعوے کی حمایت کرتا ہے۔بریڈ شرمین نے بتایا کہ کس طرح کابل کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار اور بھارت کا اس معاملے پر مبہم موقف پاکستان کے خدشات میں اضافے کا سبب ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کو اپنے دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے اور بھارت کے افغانستان جیسے ملک (جو سرحد کو تسلیم نہیں کرتا) سے بڑھتے ہوئے تعلقات اسلام آباد کی تشویش میں اضافہ کرتے ہیں۔واضح رہے کہ دو اہم گواہان ایلس ویلز اور بین الاقوامی ترقی کی امریکی ایجنسی میں قائم مقام اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر رہنے والی گلوریا اسٹیل نے اس تنازع پر کوئی بات نہیں۔ایک موقع پر کیلی فورنیا کے ڈیموکریٹ ڈاکٹر ایمی بیرا کے تبصرے پر جواب دیتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ جتنا بھارت کا افغانستان میں اثرورسوخ بڑھتا جائے گا اتنا ہی یہ پاکستان کی تشویش میں اضافے کا سبب بنے گا۔ڈاکٹر ایمی بیرا نے ان سے سوال کیا کہ افغانستان کے استحکام کے لیے امریکہ اس معاملے پر کس طرح آگے بڑھے؟ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے استحکام اور اداروں کی مضبوطی کے لیے تعمیری معاشی سرمایہ کاری ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے 2020 تک افغانستان میں 3 بلین ڈالر خرچ کرنے کا عہد کیا ہے، یہ سرمایہ کاری افغانستان کے لیے ایک نہایت اہم پروگرام کے لیے کی جائے گی۔جنوبی ایشیا کی ذیلی کمیٹی کی صدارت کرنے والے کانگریس مین ٹیڈ یوہو نے افغانستان میں بھارت کے مثبت کردار کو سراہا اور 2018 کے امریکی بجٹ میں امریکا بھارت سیکیورٹی پارٹنر شپ کو مزید بڑھانے کے دفعات شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔کمیٹی کی سماعت کے دوران کانگریس بریڈ شرمین نے لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اٹھایا، انہوں نے بالخصوص سندھ میں حالیہ دنوں میں سندھی اور مہاجر افراد کی گمشدگی کا دعوی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنان کے بارے میں جاننے کے لیے پاکستانی حکومت سے سرکاری طور پر رابطے کی امید کرتا ہوں، جبکہ لاپتہ ہونے والے افراد میں میرے دوست کا بھائی بھی شامل ہے۔

ای پیپر دی نیشن