صدارتی الیکشن سے قبل سیاست میں بڑے اتار چڑھاﺅ آتے رہے۔ اپوزیشن متحد نہ رہ سکی۔ عارف علوی کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ ہو سکتا تھا جس میں لیگی لیڈر شپ کی انا اور مولانا فضل الرحمن کی ادا آڑے آگئی۔ اعتزاز احسن صدارت کےلئے بہت سے لوگوں کی نظر میں مناسب امیدوار تھے۔ آج لیگی حلقوں کےلئے اعتزاز احسن اس لئے معتوب ہیں کہ انہوں نے لیگی قیادت کے بارے میں منفی بیان بازی کی یہی لوگ اس وقت اعتزاز کی بڑی ستائش کر رہے تھے جب وہ پی پی میں رہتے ہوئے نواز شریف کے مقدمات لڑتے تھے۔ ان دنوں کو مدنظر رکھ کر اعتزاز پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ انہی لیڈروں نے ہمیں درس دیا ہے کہ سیاست میں حمایت اور مخالفت دائمی نہیں ہوتی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے سب سے بڑا دشمن جنرل مشرف تھے اور آج شاید کچھ کو عمران خان نظر آتے ہوں۔اسی مشرف سے زرداری حکومت میں شامل ہو کر بلند پایہ لیگی لیڈروں نے حلف لیا تھا۔
ٹی وی چینلز اور اخبارات میں صدارتی الیکشن سے قبل بھی خواہش کو خبر بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض خوش فہم اپوزیشن کے متحد ہونے پر کامیابی کو یقینی قرار دیتے رہے۔ اس سے شاید اپوزیشن حلقوں کو دلاسہ ملتا رہا ہو مگر یہ حقیقت سے آنکھیں چرانے والی بات تھی۔ اپوزیشن اتحاد اور پی پی پی نے اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے پورا زور لگایا حالانکہ علم تھا کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ عارف علوی کو 353ووٹ ملے۔ مولانا فضل الرحمن کو 185اور چودھری اعتزاز احسن کو124ووٹ نصیب ہوئے۔40الیکٹورل ووٹوں کا فرق جو انتخاب سے قبل بھی واضح تھا۔
کل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا نواز شریف اور عمران باہم گلے مل سکتے ہیں مگر آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ سیاست میں نفرتوں کے الاﺅ بھڑک رہے ہیں وہ کہیں ہمارے خرمن کو نہ جلا دیں۔لیگی قیادت کا عزم راسخ دیکھیں،کل اسے شکوہ تھا کہ ستر سال میں کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ پوری اپوزیشن بھی ان خیالات زریں کی دل و جان سے حامی تھی مگر آج اسے عمران بطور وزیراعظم برداشت نہیں ہورہا۔ ان کو بھی اسی لائن میں کھڑا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس میں مدت پوری نہ کرنیوالے وزرائے اعظم کھڑے ہیں۔ حکومتی اقدامات پر تنقید اپوزیشن کا حق ہے۔ ہماری اپوزیشن وہ آج کی ہو یا ماضی کی، حکومت کے ہر کام اور اقدام پر برسنا برحق سمجھتی ہے۔ آج کی اپوزیشن زیادہ ہی فعال نظر آتی ہے۔ شاید یہ الیکشن میں بے حال ہونے کا نتیجہ ہے۔ عمران خان نے بھی انتخابات میں دھاندلی کا واویلا لیگی حکومت کے قیام کے چھ سات ماہ بعد کیا تھا۔ اب تو انتخابات سے قبل ہی غوغا برپا تھا۔
حکومت پر گرجنے برسنے کا یہ عالم ہے کہ 10ارب درخت لگانے کے ہدف کو بھی ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم پروٹوکول لیں تو تنقید نہ لیں تو گرفت۔ دس ارب درخت اسی صورت لگ سکتے ہیں جب ہر روز 55لاکھ درخت لگائے جائیں۔ یہ ہدف ہر پاکستانی کے تعاون سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن کے ڈیڑھ کروڑ حامی تو اس کام کو فضولیات قرار دیتے ہیں۔ اس حد تک بھی رہیں تو خیر ہے کہیں یہ عمل شروع نہ ہو جائے کہ دن کی روشنی میں پودا لگا، رات کے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے درخت لگائیں گے تو ان کی حفاظت بھی کریں گے۔ کیا ہر پودے کے ساتھ چوکیدار کھڑا کیا جائیگا؟
ٹمبر مافیا کو شاید اندازہ نہیں کہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کا خمیازہ کس طرح بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان پانچ سال وزیراعظم رہتے ہیںیا اپوزیشن ان کو اپنے سمیت پہلے ہی لے ڈویتی ہے تو عمران جنگلات اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔پی پی پی کی حکومت کو مزید پانچ سال مل جاتے تو ٹی وی چلانے اور موبائل چارجنگ کیلئے بھی بجلی نہ بچتی۔ لیگی حکومت نے 15ہزار ارب سے قرضے 28ہزار ارب کر دیئے، ان کو مزید پانچ سال ملتے تو اندازا کر لیں قرضے کہاں سے کہاں چلے جاتے۔ قرضوں میں جس طرح لیگی حکومت نے اضافہ کیا، قبل ازیں پی پی پی 6ہزار ارب روپے قرض کو 15ہزار ارب تک لے گئی تھی۔ پی ٹی آئی اس روش اور روایت کو جاری رکھے گی تو انجام بخیر نہیں ہو سکتا۔
وزیراعظم کے پروٹوکول اور ان کی حفاظت کے اقدامات کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ وہ گاڑی میں سفر کریں تو گرفت نہ کریں تو بھی ہاتھ ہلکا نہیں رکھا جاتا۔ ہیلی کاپٹر کے استعمال کو مذاق بنا لیا گیا ۔ بڑے بڑے سیاستدان اور چھوٹے موٹے دانشور بھی ایسی سستی سواری کی سہولت مانگ رہے ہیں۔ بالکل مل سکتی ہے۔ ملنی بھی چاہئے۔ آپ بھی وزیراعظم بنیں اور 55روپے فی کلو میٹر والے ہیلی کاپٹر میں سفر کریں وہ بھی خود ادائیگی نہیں کرنی حکومت کرے گی۔ بات عمران خان کی حفاظت کی نہیں، ضرورت وزیراعظم کے تحفظ کی ہے۔ وہ کار میں سفر کریں گے تو کار بلٹ پروف ہوگی اور آگے پیچھے تیس چالیس گاڑیاں بھی ہونگی۔ اسی طرح وزیراعظم کی حفاظت یقینی بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
اوباما بھارت آئے تو 35سو اہلکار دو ہفتے قبل دہلی پہنچ گئے تھے۔ اوباما نے جہاں جہاں جانا تھا وہ علاقہ اور جگہ ان کی تحویل میں دے دی گئی۔ اوباما کے لئے خصوصی لیموزین امریکہ سے آئی تھی۔ امریکہ میں ہر سال صدر کیلئے بم پروف لیموزین بنتی ہے۔ ظاہرہے کنٹرول ڈرائیور کے پاس ہوتا ہے۔ امریکی سی آئی اے ڈرائیور پر بھی اعتبار نہیں کرتی۔ صدر کے کیبن میں بٹن کے ذریعے ڈرائیور کو مکمل طور پر لاتعلق کیا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر کے زیراستعمال گاڑی دوسرے سال نائب صدر کو دے دی جاتی ہے اور نائب صدر کی گاڑی پر وزیر خارجہ کا حق ٹھہر جاتا ہے۔
ہمارے وزیراعظم کے زیر استعمال بلٹ پروف مرسیڈیز میں بھی بے شمار خوبیاں ہیں یہ سیلاب کی زد میں آ جائے یا اس گاڑی کو سمندر میں پھینک دیا جائے اس میں 5دن کی آکسیجن سمیت دیگر لوازمات موجود ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ہاﺅس میں اس جیسی 130 گاڑیاں ہیں جن کو اب نیلام کیا جا رہا ہے۔ نیلامی میں اشتہار کے مطابق کوئی بھی شہری حصہ لے سکتا ہے۔ افواہ مافیا سرگرم ہے کہ گاڑیاں حکومت اپنے چاہنے والوں کو سستے داموں بیچ رہی ہے۔ میڈیا کی فعالیت میں ایسا ممکن نہیں۔
ایک مافیائی جھلک شرجیل میمن کیس میں بھی نظر آئی ۔ شراب کی بوتلوں میں شہد کا کرشمہ رونما ہو اور شرجیل میمن کا خون شراب کی آلائش سے مبرا نکلا۔ مافیا نے یہ طاقت کسی معمولی ادارے یا شخصیت کے نہیں چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے دکھائی۔ (ختم شد)