اسلام میں فلسفہ شہادت انتہائی واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت بلند ترین اعزاز ہے۔ سورة آل عمران آیت نمبر:157 میں اللہ جل شانہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: اور اگر تم اللہ کے راستے میں مارے جاﺅ یا مرجاﺅ تو جو (مال ومتاع) لوگ جمع کرتے ہیں اس سے اللہ کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے۔“
پاک فوج کو پاکستان کی بنیاد پڑتے ہی ابتداءمیں اپنی پیشہ وارانہ خدمات ملک کی خاطر پیش کرنے کی ضرورت پڑگئی۔آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے قافلے ہجرت کرکے پاکستان کی جانب رواں دواں ہوئے تو ہندواور سکھوں کے جتھوں نے ان قافلوں کو لوٹنے کے علاوہ مسلمانوں مہاجروں کاقتل عام شروع کیا۔ پاک فوج کے افسر وجوان جو خود ابھی نئے وطن میں آبادہی نہ ہونے پائے تھے کو مہاجرین کے قافلوں کی حفاظت پر مامور کردیا گیا۔ ہندو اور سکھ جتھوں سے مقابلہ کرتے ہوئے کئی فوجی افسروجوان نے جام شہادت نوش فرمایا۔ 27اکتوبر1947ءکو بھارتی فوجون نے سری نگر پر حملہ کرکے کشمیر پرقبضہ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کی نوزائیدہ فوج کو وطن عزیز کے دفاع اور کشمیری مسلمانوں کو بھارتی فوج کے چنگل سے آزاد کرانے کی خاطر صف بندی پرتعینات کیا گیا۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کے افسران وجوان نے لبیک کہا اور اس جنگ میں بھی متعد فوجی شہید ہوئے۔1965ئ کی جنگ1971ءکی جنگ میں صف آرائی، کارگل کے محاذ اور اب 2001ءسے جاری دہشت گردی کےخلاف جنگ میں دشمن کی جارحیت کا مکمل جوش وجذبے سے جواب دینے کی خاطر ہزاروں فوجیوں نے شہادت کا رتبہ پایا۔ قوم کو ان شہیدوں پر فخر ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے بہترمستقبل کی خاطر اپنا تن من دھن وطن عزیز پر قربان کردیا۔ ان جانثار سرفروشوں کو ایک ہی لگن تھی کہ وہ ملک وقوم کی خاطر رتبہ شہادت حاصل کریں۔ بقول علامہ اقبالؒ
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یہ تمہید اس لئے لازمی تھی کیونکہ کہ نو مبر2013ءمیں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے فلسفہ شہادت کے متعلق ایک متنازعہ مباحثہ چھیڑ دیا تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ” دوران جنگ اگر ایک امریکی ہلاک ہوجائے تو اسے شہید نہیں کہیں گے“ اپنی منطق کو پاک فوج سے جوڑتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے اضافہ کیا تھا کہ جولوگ امریکہ کے حلیف ہیں وہ بھی شہید کہلانے کے مستحق نہیں ہونگے کیونکہ وہ امریکی مقاصد کے لئے کام کررہے ہیں۔“ سید منورحسن کا اشارہ پاک فوج کی جانب تھا۔ کیوکہ پروگرام کے میز بان نے سوال اسی حوالے سے کیا تھا۔ بجا طورپرپاک فوج کے جذبات اور احساسات مجروح ہوئے تھے۔ فوج کے شعبہ عامہ نے اسکے جواب میں ایکشن لیتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا کہ شہداءکے لواحقین کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور امیر جماعت اسلامی کو ان سے معافی مانگنی چاہیے۔ بجائے معافی مانگنے کے جماعت اسلامی نے بحث کو مزید اپر گندہ کرنے کی کوشش کی۔ جماعت کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی پریس کانفرنس میں بیان نے جلتی پرتیل کا کام دکھایا۔ بجائے اس کے کہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے، الٹاپاک فوج کولتاڑتے ہوئے انہوں نے کہا ” فوج کو یہ حق نہیں کہ وہ سیاسی یا جمہوری بیانات جاری کرے“ اول تو یہ کہ جماعت اسلامی نے فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیت کو چیلنج کیا تھا ، دوسرے یہ کہ فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کا منصب یہی ہے کہ فوج کے پیشہ ورانہ امور سے متعلق قوم کو آگاہ رکھے۔ فوج کے سپہ سالار یاان کے فیصلوں سے اگر جماعت کو کوئی اختلاف ہو یا ان کی کسی پالیسی سے اتفاق نہیں تو اس کا شاخسانہ معصوم جوان اور نوخیزا فسروں پر نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو موت کے گرجتے طوفان سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے ٹکرا جاتے ہیں۔ جنگ کے لپکتے شعلوں ، دھاڑتی توپوں اور آسمان سے گرتے ہوئے بموں اور راکٹ کی پرواہ کئے بغیر جام شہادت نوش کرتے ہیں وہ توحکومت وقت اور اپنے سپہ سالار کے ایک اشارے پر وطن عزیز کے دفاع کی خاطر خود کوقربان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسی عظیم شخصیات خواہ وہ ادنیٰ سپاہی ہو یا اعلیٰ جرنیل اگر اس نے اپنے فرائض منصبی کی ادا ئیگی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تو وہ خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک اعلیٰ ترین مرتبے پرفائز ہوچکے اور قوم کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے نہ کہ جماعت اسلامی کاامیر خود ایسے شہیدوں کی شان میں گستاخی کرے۔
میری آرزو ہے کہ خدا کی راہ میں لڑتے لڑتے شہید ہوجاﺅں پھر زندگی ملے پھر شہید ہوجاﺅں: ہمارے آقا ئے کونین کو بخوبی اندازہ تھا کہ۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے
بہت سے قارئین کو شاید عمل نہ ہو کہ مندرجہ با لا اشعار کس کے ہیں ۔1989ءمیں راقم نے پاک فضائیہ کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کا عہد ہ سنبھالا تو اس وقت فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل حکیم اللہ نے مجھے بلاکر یہ اشعار دئے اور حکم دیا کہ میں پتہ کروں کہ یہ کس کے ہیںاور پوری نظم حاصل کر کے اس پہ نوجوانوںکو حوصلہ افزائی کی خاطر ایک ملی نغمہ ترتیب دوں اور اس کی ویڈیو ایسی ہو کہ ہمارے نوجوان وطن عزیز کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہو جائیں۔وہ انٹرنیٹ کا زمانہ نہ تھا لہذا مختلف لائبریریوں کی چھان بین کے بعد راولپنڈی کی لیاقت لائبریری سے پتہ چلا کہ یہ کلام عبدالمجید سالک کی ہے جو انہوں نے 1935ءمیں کہی تھی۔ اب تلاش ہوئی مناسب آواز کی جو ان لہو گرما دینے والے کلام میں جان پیدا کرے۔معروف گلوکار عالمگیر کا انتخاب ہوا ۔انہوں نے جب نظم پڑھی جس میں دو بندموجود ہ دور کے شاعر توصیف تبسم نے اضافہ کیے تو عالمگیر جذباتی ہو گئے اور کہا کے میں اس کا معاوضہ نہیں لوں گا کیونکہ میں نے ان سے کہا کہ آپ اتنا ڈوب کر اسے گائیں تاکہ جب ہمارے پائلٹ اور دوسرے جوان اسے سنیں توان میں جذبہ شہادت اجاگر ہو۔نغمہ ریکارڈ ہوا اور اس کی ویڈیو پاک فضائیہ کے شعبہ تعلقات عامہ نے میری سربراہی میں ترتیب دی گئی۔1989ءمیں یعنی29 برس قبل ترتیب دیا جانے والا یہ نغمہ آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا اس وقت تھا اور مختلف گلوکاروں نے بھی اسے اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا بشمول جنید جمشید کے لیکن عالمگیر جتنا جذبہ کوئی اور نہ پیدا کرسکا۔ایک اور واقعہ اس سے منسلک ہے۔نغمے کے ٹی وی پہ چلنے کے بعد عبدالمجید سالک کے صاحبزاد ے عبدالسلام خورشید نے مجھے خط لکھا کہ نغمہ ان کے والد کا تھا لہذا انہیں اس کی ریالٹی ادا کی جائے۔ میں نے انہوں جواب میں یہ لکھا کہ یہ نغمہ کمرشل نہیں ہے لیکن پاک فوج کے جوان اسے سن کر ایسے جذبے سے سرشار ہوجاتے ہیں کہ وہ وطن عزیز کے دفاع کی خاطر شہید ہونے کو تیار ہوجاتے ہیں۔اگر اس جذبے کی کوئی قیمت ہے تو بتائیں ؟ عبدالسلام خورشید نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔
زکوٰة دے اگر کوئی زیادہ ہو تو نگری
بکھیر دے اناج اگر تو فصل ہو ہری بھری
چھٹیں جو چند ڈالیاں نموہو نخل طاق کی
کٹیں جو چند گردنیں تو قوم میں ہوزندگی