ا صل پس منظر یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے۔ کابل اور بھارت یہ نہیں چاہتے کہ طالبان کو اقتدار منتقل ہو کیونکہ اس سے تشدد بڑھے گا، عدم استحکام پھیلے گا اور جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوگا۔ مزید براں کابل میں طالبان کی موجودگی پاکستان کی فتح ہوگی جس کو وہ دہشت گردوں کی تربیت کیلئے استعمال کریگا اور 2001والی صورتحال دوبارہ پیدا ہوجائیگی۔ اس کا سدباب کیسے کیا جاسکتا ہے؟
اس کیلئے بھارت کو براہ راست کابل حکومت کی مدد کرنا ہوگی۔امریکہ بھی یہ چاہتا ہے کہ بھارت یہ ذمہ داری قبول کرے کیونکہ افغانستان امریکہ کے مقابلے میں بھارت سے زیادہ قریب ہے۔لیکن اس کردار کو ادا کرنے کیلئے بھارت کو افغانستان تک براہ راست رسائی چاہیے۔ موجودہ حالات میں افغانستان کو سارے راستے پاکستان کے ذریعے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کبھی بھی بھارت کو یہ اجازت نہیں دیگا کہ وہ اس کے علاقے سے اپنی فوج اور جنگی ساز و سامان افغانستان لیکر جاسکے۔ اس مسئلے کا حل پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے) کو آزاد کرانا ہے۔اس علاقے کا نقشہ صاف بتا رہا ہے کہ اس کے سر پر واقع وا خان کی راہداری افغانستان کا حصہ ہے۔لہذااگرپاکستانی کشمیر بھارت میں ضم ہوجائے تو بھارت کو براہ راست افغانستان تک رسائی حاصل ہوجائیگی اور وہ اپنی فوج کی سپلائی لائن ممکن بنا سکے گا۔ نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی ممکن ہوجائیگی۔ ایسی صورت میں امریکہ کو اس خطے میں اپنے مفادات کیلئے پاکستان پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اسوجہ سے امریکہ اور روس دونوں اس پیش رفت کے حامی ہونگے۔ متحدہ کشمیر کی موجودگی میں امریکہ کیلئے یہ بھی ممکن ہوگا کہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روک سکے۔ اور اس کی "شارک قرضوں "کی پالیسی کا بھی سد باب ہوسکے۔
پاکستان مزاحمت کریگا لیکن ناکام ہوگا۔امریکہ پاکستان کو نیوکلیر ہتھیاروں کے استعمال سے روک دیگا یہ کہہ کر کہ اگر وہ اس کی بات مانے گا تو وہ عالمی بینک کے ذریعے اسے قرضے دلا کر اس کی معیشت کی بحالی کا انتظام کردیگا۔ چین کو اصل فکر سی پیک کی ہوگی اور بھارت کیطرف سے اس کو یہ یقین دہانی کرادی جائیگی کہ اس کے اثاثے محفوظ رہیں گے۔ مزید براں چین اس فکر سے آزاد ہوجائیگا کہ اس کے علاقوں میں دہشت گرد عناصر داخل ہوں۔ لہذا چین مشرقی محاذ پر ایک نئی جنگ کا آغاز نہیں کریگا کیونکہ امریکہ بھی اس کو اس بات سے روک دیگا وگر نہ دنیا میں ایک نئی عالمگیر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس پش منظر میں بھارت کا یہ عزم کے وہ پاکستانی کشمیر کو آزاد کرالے ایک امید افزا امکان ہے"۔
گرچہ یہ باتیں مضحکہ خیز ہیں، لیکن یہ عام بھارتی ذہن میں برسوں سے پرورش پارہی ہیں۔ اوپر ہم نے بڑے بڑے لیڈروں کے بیانات کا حوالہ دیا ہے جو اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔حتی کہ بھارتی آرمی چیف نے بھی یہ بیان دیا ہے کہ کیونکہ پاکستان کی روائتی صلاحیت قابل ذکر نہیں ہے لہذا وہ نیوکلیر کا واویلا مچا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشور کٹی کے اس بلاگ پر سینکڑوں تبصرے ہوئے ہیں اور ایک بڑی اکثریت نینہ صرف ان کے خیالات سے اتفاق کیا ہے بلکہ اس کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے یقیناً یہ کہا ہے کہ آپ دشمن کو کمزور مت سمجھیں اور نہ یہ سمجھیں کہ جس علاقے کی بات کیجارہی ہے وہ میدانی علاقہ ہے جس میں ایک بڑی سپلائی لائن کو آسانی سے بنایا اور محفوظ کیا جاسکتا ہو۔ علاوہ ازیں جن مفروضوں پر یہ مضمون باندھا گیا ہے ان پر ہنسی آتی ہے۔ امریکہ، روس اور چین کے ردعمل سے متعلق گمان کسی دیوانہ کی بڑ سے زیادہ نہیں ہے۔
اس طرح کے خیالی پلاؤ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا سنجیدگی سے جواب دیا جائے۔ لیکن ہم صرف ایک بھارتی دفاعی تجزیہ نگار پراوین سوانی، جو چالیس سال سے اس شعبے سے وابستہ ہیں، کا ایک طویل ویڈیو پیغام کا حوالہ دینگے جو آجکل وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی فوج نہ صرف پروفیشنل ہے بلکہ اس نے وقت کیساتھ ساتھ ہر بھارتی برتری کا توڑ پیدا کرکے خود کو اپنے محدود وسائل میں اس قابل بنایا ہے کہ وہ بھارتی طاقت کا مقابلہ کرسکے، چاہے وہ روائتی ہو یا نیو کلیر۔ لہذا بھارت کے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان سے جنگ کرنا کوئی کیک والک (cake-walk) نہیں ہوگی۔