طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آزادی نہیں چھینی جا سکتی 

گزشتہ سے پیوستہ
 ارون دھتی رائو اور جسٹس ریٹائرڈ کاٹجو کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کی عرصہ سے حمایت کررہے ہیں۔ اب مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کی بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت پر خود بھارتی اخبارات بھی بولنا شروع ہوگئے ہیں۔ بھارت کے انگریزی اخبار ’’دی ٹیلیگراف‘‘ نے اس موضوع کو اپنی شہ سرخی بنایا۔ اخبار نے ریاست کیرالہ میں ہندو انتہا پسندوں کے ہنگامے کی ایک تصویر شائع کی اور لکھا کہ کشمیر میں ہم انہیں مارتے ہیں، کیرالہ میں ہم انہیں عقیدتمند کہتے ہیں۔ نریندر مودی کی انتہاپسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حالیہ دور اقتدار میں بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی سرگرمیوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوج کے مظالم میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی پر وہاں کی نامور شخصیات جیسا کہ سابق بھارتی چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو اور اداکار نصیر الدین شاہ بھی مودی حکومت کی جانب سے انتہاپسند ہندوؤں کو کھلی چھوٹ دیئے جانے پر تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں۔بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی واضح کرچکے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو عوام کی اکثریت کے مطالبے کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ ہمیں ایک ایسا حل نکالنا چاہئے جو باعزت باوقار اور جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت کیلئے قابل قبول ہو۔  ان کو بھی کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہورہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے جس کا مودی سرکار کو بھی ادراک ہے مگر وہ انسانیت کے بجائے ظلم و بربریت پر یقین رکھتی ہے۔ بھارت کے کٹھ پتلی رہنے والے حکمران بھی مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی بات کرتے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے بھارت کو متعدد بار مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا ہے۔ اور تو اور گزشتہ دنوں بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنٹ لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھٹ نے مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کیلئے کشمیریوں سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کا ایک محدود کردار ہے۔ کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو اچھے نظم و نسق اورسیاسی مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے جس طرح اٹل بہاری واجپائی کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ فوج صرف معمول کے حالات بحال کرنے کیلئے مدد کر سکتی ہے ،امن برقرار رکھنا فوج کا کام ہے لیکن مسئلے کا طویل مدتی حل حکومت کو خود ڈھونڈنا ہوگا۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے مودی ڈاکٹرائن کے مطابق بھارت کے سات لاکھ سے زائدفوجی طاقت کے بیجا استعمال کے ذریعے کشمیر میںامن لانے کی ناکام پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ نہ جانے کیوں بھارتی حکومت کو گمان ہے کہ طاقت کے استعمال سے ہی کشمیر کی وادی پر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن حالات اسقدر ابتر ہو چکے ہیں کہ وادی کو لہولہان کرنے کے باوجود نام نہاد امن کی تمام تر کوششیں بیکار جا رہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن