جدید دور کا انسان چاند کومسخر کر چکا ہے ۔ مریخ پر قدم جما چکا ہے ۔ سمندر کی تہہ سے لے کر آسمان کی وسعتِ بے کراں تک پھیلے ہوئے اجزاء کاتفصیلی مطالعہ کر چکا ہے ۔ سائنسی ترقی کو دیکھ کر شعراء محو حیرت ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی ہے ۔ ہم عقل و شعور کے سنہرے دور میں جی رہے ہیں لہٰذا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس جہان ِ تازہ میں مقابلے کی ایک خوف ناک فضاہے۔یہاںجام اسی کا ہے جوخود آگے بڑھ کردوسروں سے چھین لے ۔ زندہ وہی ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرے ۔ قیادت اسی کے ہاتھ میں ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کا امام ہے۔فکر و شعور کے لحاظ سے برترقوم ہی اقوامِ عالم میں اپنا لوہا منواسکتی ہے ۔ فکروشعور کے ارتقاء اور سائنسی ترقی کا براہِ راست تعلق نظامِ تعلیم سے ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم جدید دور کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت رکھتا ہے ؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔
ہمارا موجودہ نظام ِتعلیم زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ تعلیمی زوال کے نتیجے میں اب ہمارے ہاں کسی بھی شعبے میں عالمی سطح کا کوئی ماہر ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ شعروادب ہو یا فلسفہ و تاریخ ، ہر شعبے میںپستی کا یہ عالم ہے کہ سولہ سال تعلیمی اداروں کی خاک چھاننے کے بعدوہاں کے سند یافتگان کی اکثریت چند درست سطریں لکھنے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ بارہا ایسا ہو اکہ ملک کی مقتدر جامعات میں زیرِ تعلیم طلباء سے اظہارِ خیال کا موقع ملا، ان کی علمی بے بسی دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔
قارئین میرے آج کے تأثرات کو شاید مبالغہ آرائی سمجھیںلیکن حقیقت اس سے کئی گنا زیاد ہ تلخ ہے ۔ اس تلخ حقیقت کا جائزہ لینے کے لیے آپ کسی بھی شعبے میں پڑھایا جانے والا نصاب دیکھ لیں ۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی بہت کم کتابیں مقامی ماہرین کی لکھی ہوئی ہیں ۔انجینئرنگ کا نصاب ہو یا میڈیکل کا، قانون کی کتابیں ہوں یا معاشی علوم ۔ یہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ہر طرف غیر ملکی مصنفین کا راج ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہمارے اصحاب علم و دانش اتنی استطا عت بھی نہیں رکھتے کہ ان کا لکھا ہوا مستند سمجھ کر نصاب کا حصہ بنادیا جائے ؟ اس کاواضح جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاںہر شعبے میں عالمی سطح کا علمی و تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہے جس وجہ سے ہمیں غیر ملکی مصنفین کی لکھی ہوئی کتابوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے تعلیمی اداروں نے بین الاقوامی سطح کے کتنے مفکر، ادیب اور سائنس دان تیار کیے ہیں؟ گنتی کے چند نام اگر ہیں تو ان پر بھی بیرونی درس گاہوں کی چھاپ نمایاں ہے ۔ ورنہ بقول شخصے کہ یہاں ہر طرف شاہ دولہ کے چوہوں کا راج ہے جو دیکھنے ، سننے اور سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔
رٹہ سسٹم ہمارے نظام تعلیم کی سب سے اوّلین خرابی ہے ۔ طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے بجائے انھیں اسباق ازبر کرا دیے جاتے ہیں ۔ وقتی طور پر امتحانات میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب اُگل کر بچے اعلی نمبروں سے کامیاب توہوجاتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی بڑا معرکہ سر انجام دینا تو کجا ،عمر بھر ایک مخصوص دائرے میں سفر کرتے رہتے ہیں اور دائروں کایہ سفر ہمارا سب سے بڑا المیہ بن کے رہ گیا ہے ۔ تعلیم انسان کو فکر و شعور کی منازل طے کراتی ہے ۔ یہی شعور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتاہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باشعوراقوام اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف نمایاں علمی اور فکری معرکے سرانجام دے رہی ہیں بلکہ نئے نئے علوم کی تخلیق میں بھی خاطر خواہ کام ہورہا ہے ۔ اس کی واضح مثال کمپیوٹر سائنس کا علم ہے جو خالصتاََ انسان کی فکرِ رسا کا حاصل ہے ۔ ہمارے ابتر نظامِ تعلیم کا حال یہ ہے کہ ابھی تک ہمارا طالب علم اس سمت کی جانب عازمِ سفر نہیں ہوپایا جہاں فکر و شعور کو جلا ملتی ہے اور تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔
طبقاتی نظام تعلیم کا ہونا کوئی بہت اچنبھے کی بات نہیں ۔ جدید دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ جدید ممالک میں ایک سے زائد تعلیمی نظام موجود ہیں ۔ تنوع اس کائنات کی ایک بنیادی حقیقت ہے جسے قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن ہمارے ہاںکا طبقاتی نظامِ تعلیم اپنے پہلو میں بے تحاشا خرابیاںلیے ہوئے ہے۔ اس فرسودہ نظام کی وجہ سے معاشرے میں افتراق و انتشار جنم لے رہا ہے۔ مختلف نصاب اور نظام ہونے کی وجہ سے قومی سوچ پروان چڑھنے سے قاصر رہتی ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اہم ترین مسئلہ معیاری تعلیم کا نہ ہونا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے گرتے ہوئے معیارِ تعلیم کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ اساتذہ کی تربیت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے ۔ تدریس کا شعبہ عزت و توقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایک طالب علم اپنی ذاتی گاڑی میں کالج یا یونیورسٹی آتاہے اور اپنے استاد کو موٹر سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ پہ آتے ہوئے دیکھتا ہے توفطری طور پر وہ کبھی بھی کسی ایسے شعبے کی طرف مائل نہیں ہوگا جو اسے برتر طرزِ زیست مہیا نہ کرے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں پرائمری، سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن پر یکساں توجہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ چنانچہ اسی وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے جناب وزیر اعظم کی ایماء پروفاقی وزیر تعلیم نے شعبۂ تعلیم میں بنیادی اصلاحات کا اعلان کیا ہے ۔ ان اصلاحات میں سرِ فہرست یکساں قومی نصاب کا رائج کیا جانا ہے ۔ اسی طرح دسمبر سے پہلے مُلک بھر کے اساتذہ کی ٹریننگ کا عمل بھی شروع ہوجائے گا۔ اساتذہ کی یہ ٹریننگ ایک شفاف طریقۂ کار کے تحت انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کراچی کے ذریعے ہوگی ۔ ان کے علاوہ بہت سی ناگزیر اصلاحات عمل میں لائی گئی ہیں جن کو بتدریج تعلیمی نظام کا حصہ بنایاجائے گا۔ہمیں یہ بنیادی بات سمجھنی چاہیے کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے اور اس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آئیں گے ۔ امید ہے کہ ان اصلاحات کی روشنی میں ہمار اابتر اور بکھرا ہوا نظام تعلیم ایک درست سمت میں گامزن ہوجائے گا ۔یقینا یہ اصلاحات ہر پاکستانی کے لیے امید کی کرن ہیں ۔