یہ لمحہ موجود کا شاہنامہ ہے۔ اس کو کبھی زوال نہیں، اس کا تذکرہ دلوں کو گرماتا اور ذہنوں کواجالتا ہے۔چھ ستمبر کو فجر کی اذان سے پہلے توپوں کی گھن گرج نے جگایا۔ دور کی آواز قریب آتی چلی گئی۔ میں گو رنمنٹ کالج میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا، سمن آباد سے پیدل کالج تک جانا پڑتا تھا۔راستے میں چوبرجی کی ایک دکان پر لوگوں کاہجوم تھا۔ ریڈیو پرایوب خان کی تقریر نشر ہو رہی تھی، آخری الفاظ تھے کہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو، ہجوم نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا،۔ کالج میں ایک پیریڈ پڑھا ہو گا کہ آسمان پر دھماکے ہوئے۔ کالج کے کمروں کے شیشے چٹخ گئے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ فضا میں ایم ایم عالم کے جہاز نے سائونڈ بیریئر توڑا ہے جس سے زوردار دھماکہ ہوا ہے، ایم ایم عالم نے شہریان لاہور کے سامنے اپنی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کیا تھا یہ پیغام تھا کہ وطن کے جانثار جاگ رہے ہیں۔
انارکلی چوک میں آئیڈیل بک ہائوس کی ایک بڑی دکان تھی، اس کے ایک کونے میں چار پانچ کرسیوں پر روزانہ پروفیسرقیوم نظر محفل جماتے تھے ۔ ا س روز بھی ان کے قہقہے گونج رہے تھے، یہ قہقہے بھارتی بزدلی اور رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح زندہ دلان لاہور کو چیلنج کرنے والوں کا تمسخر اڑا رہے تھے۔باہر مال روڈ پر شورسنائی دیا۔ میںبھاگ کے کافی ہائوس تک طویل جلوس کو دیکھ رہا تھا جس کی قیا دت صفدر میر کررہے تھے اور ان کے پیچھے شہر کے شاعروں اور ادیبوں اور دانش وروں کی ایک لمبی قطار، صفدر میر اونچی آواز میں اپنی نظم لاہور کو سلام پڑھ رہے تھے۔ آخری بند تھا میں پھر شہید ہوں،میں پھر شہید ہوں،یہ سن کر ادیب اور شاعر نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ جلوس آگے نکل گیا۔ شہر کی فضائوں میں بھارتی اور پاکستانی طیاروںکی ڈاگ فائٹ شروع ہو گئی لاہوریئے اپنی چھتوں پرچڑھ گئے، یہ لڑائی عین انارکلی کے اوپر جاری تھی۔ میںبھی ا س کو دیکھنے کے لئے بائبل سوسائٹی سے آگے نئی انار کلی کی طرف نکل گیا۔ لاہوریئے بو کاٹا بو کاٹا کے نعرے لگا رہے تھے۔
شام کو ریڈیو پر خبریںنشر ہوئیں ، شکیل احمد اپنے مخصوص لہجے میںکہہ رہے تھے کہ ہمارے ہوابازوںنے اودھم پور جودھپور انبالہ اور گورداسپور کے ہوائی اڈوں پر نیچی نیچی پرواز کرتے ہوئے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔ رات کو خبر اڑی کہ دشمن نے لاہور میں گھس بیٹھیئے اتار دیئے ہیں۔ بس پھر ایک نیا منظر نامہ سامنے آیا۔ اہل لاہور نے لاٹھیاں پکڑیں اور پارکوں اور قبرستانوں کو کھنگال ڈالا ، جو پر اسرار شخص نظرا ٓیا اسکی مرمت کر دی۔سینکڑوں کی تعداد میں لاہور کے شہری لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر باٹا پور تک جا پہنچے جہاں دشمن کے ساتھ گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی، لاہوری بوڑھی خواتین نے چنگیریں روٹیوں سے بھری ہوئی تھیں اور ان پر مکھن رکھ کر اپنی دلیر فوج کو پیش کرتیں ساتھ ہی ٹھنڈی ٹھار لسی کے گلاس۔ فوجی شکر بجا لاتے اور شہریوں سے کہتے کہ آپ سکون سے گھروں میں بیٹھیں ، ہم دشمن کو ملیا میٹ کر دیں گے اور ایک انچ آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ دشمن کے جرنیل نے بڑھک ماری تھی کہ وہ جم خانہ میں فتح کا جام پیئے گا مگر کئی شامیں گزر گئیں،اکیلے میجر شفقت بلوچ نے اسے ہڈیاریہ نالے کے گندے پانی کا گھونٹ تک نہ پینے دیاا ور پاک فوج کے ایک افسر نے آگے بڑھ کر بھارتی جرنیل کی جیپ کو گھیرے میں لے لیا۔ اس پر میجر جنرل نریندر پرشاد نے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی ا ور گنے کے کھیتوں میں گھس گیا ۔ اگلے روز اس کے کور کمانڈر نے اس کھیت سے ایسے پکڑ کر باہر نکالا جیسے کڑکی سے چوہے کو کھینچتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ تھی کہ آکاش وانی خبریں نشر کر ہی تھی کہ ا س کی افواج لاہور کی انار کلی میں مٹر گشت کر رہی ہیں اورقصور کے فالودے سے دل بہلا رہی ہیں، لاہور میں تو بھارتی افواج کے دعوے میرے سامنے جھوٹ ثابت ہو تے تھے البتہ مجھے اپنے شہر قصور کی فکر لاحق ہوئی۔ میں بس میں بیٹھ کر قصور پہنچا ۔ پتہ چلا کہ ہماری دلیر افواج تو کھیم کرن کو فتح کر چکی ہیں اور ہمارے دیہاتی اس قصبے کی سیر کر رہے ہیں، میں بھی ایک ہجوم کے ساتھ کھیم کرن پہنچا۔یہ قصبہ دو طرفہ توپوں کی فائرنگ سے کھنڈر بن چکا تھا ۔ میںنے ایک ایسا گھر دیکھا جس کے مینار ابھی سلامت تھے،۔ ظاہر تھا کہ کسی مسجد کو گھر میں تبدیل کرلیا گیا تھا۔ یہ تھا بھارت کے سیکولرا زم کا مکروہ چہرہ۔
میں نے وہاں سے قصور آ کر کرائے کی ایک سائیکل لی تاکہ اپنے گائوں فتوحی والہ جا سکوں،ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا کہ بھارتی فضائی حملہ ہوگیا، میںنے ایک درخت کی آڑ میں سائیکل کھڑی کی اور حملہ ختم ہونے کا انتظار کر نے لگا، اتنے میں بارڈر کی طرف سے ایک فلیگ جیپ آئی۔ اس میں ایک بریگیدیئر صاحب تھے، مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں، میںنے بتایا کہ فتوحی والہ میں اپنی ماں کی خیر خیریت معلوم کرنے جا رہا ہوں،بریگیڈیئر صاحب نے کہا کہ پورا گائوں چھ ستمبر کی صبح سے خالی پڑا ہے۔ میںنے مایوس ہو کر واپسی کی راہ کی؛ بارڈر کی طرف سے ایک بڑا فوجی ٹرک میرے پاس سے گزرا، اس میں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی شاید کسی شہید کی اس میں نعش تھی۔ایسی خوشبو میںنے زندگی بھر نہیں سونگھی، میںنے سائیکل تیز چلا نے کی کوشش کی تاکہ اس خوشبو کو دیر تک سونگھ سکوں اورا سے اپنے جسم وجاں کا حصہ بنا سکوں، ظاہر ہے ٹرک کی رفتار تیز تھی۔ ٹرک جلد ہی نظروں سے ا وجھل ہو گیا ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب زندگی کی پہلی تحریر میرے ذہن پر اتری۔ اور یہ ایک نظم کی شکل میں تھی، اے مرے زندہ مجاہد اے مرے زندہ شہید۔ تب 9ستمبر 65سے آج 9ستمبر 20تک میں مجاہدوں اور شہیدوں کی خوشبووں میں بسا ہوا ہوں۔ نہایا ہوا ہوں۔
٭…٭…٭