مضمون 13 اگست کو لگھا گیا۔ ایک پاکستانی پختہ کار صحافی جو باریک بین مفکر بھی نہیں (سجاد میر) انہوں نے حال ہی میں ملکی سلامتی کے تناظر میں ایک اہم ترین سوال اٹھایا ہے جس پر ملک کے تمام تر اہلِ دانش کو محض خاموش رہنے کی بجائے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے جیسے امریکہ نے ملکی مسائل کے ہر شعبہ کیلئے تھنک ٹینک قائم کئے ہوئے ہیں اور ملکی پالیسیوں میں ان سے باقاعدہ رہنمائی لی جاتی ہے۔ عمران خان نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ’’مدینہ سٹیٹ‘‘ قائم کرنے کا سیاسی نعرہ تو لگا دیا لیکن جتنے ادل بدل کا مشیران کا مجمع اپنے اردگرد لگایا ان میں سے ایک بھی دین اسلام پر پوری پوری دسترس رکھنے والا تو کجا صحیح صحیح دینی شعور کا حامل بھی نہیں تھا۔ البتہ چاند دیکھنے جیسے طے شدہ مسئلے کو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے مصداق بیشتر قرار دیتے دیکھے گئے۔
ہلاکو خان نے جب 1258ء میں بغداد پر حملہ کیا تو اس وقت اسی قسم کے نام نہاد دانشوروں (علما) نے اصل ملکی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر ایسی فروعی بحثوں کی چاٹ پر لگایا ہوا تھا جو ذہنی عیاشی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ تمہید باندھنے کا مدعا یہ ہے اس وقت افغانستان کے حوالے سے ’’شیطانی اتحاد ثلاثہ‘‘ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت جو فتنہ فساد پیدا کر رہا ہے اور جس کی سیدھی زد پاکستان پر پڑی رہی ہے اس پر عورتوں کی طرح واویلا مچانے کی بجائے با تدبیر ، حوصلہ مند مردوں کی طرح سارا زور موثر منصوبہ بندیوں پر لگانا چاہئے۔ آئیے ملک کے ایک باریک بین صحافی نے جو اہم سوال اٹھا کر اصل مسئلہ پر توجہ دلائی ہے اس پر عاملانہ غور و فکر کریں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے ابتدا ماضی سے کی ہے
’’پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا بہت بڑا تعلق خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس پر حکومت امریکہ کی دفاعی حکمتِ عملی ہے۔ آسان لفظوں میں سی پیک تھا اور ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف۔ نواز شریف کا جانا اور عمران خان کا آنا ایک طرح سے سی پیک کی طرف سے آئی ایم ایف کی طرف کا سفر تھا…‘‘
سجاد میر کے ماضی کے اس تجربے کے ساتھ یہ سوال بھی شامل کیا جاتا ہے یہ سوال مذکورہ سوال کا حصہ ہے یا جواب
نواز شریف کا مسلمانوں کے مسلمہ قاتل مودی سے دوستی کی پینگیں بڑھانا اور اسے مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کیلئے بلکہ مزید مفاد لینے کیلئے خفیہ خفیہ اپنے کاروباری چکر میں بھارتی تاجروں سے میل جول بڑھانا اس کی موروثی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ یہ حکمت عملی ان کے والد کی دوراندیشیوں کی پیداوار تھی کہ اگر اقتدار کو دوام بخشنا ہے تو بھارت سے لڑائی کی بجائے دوستی بڑھائو اور اس کی معرفت امریکہ جو پاکستان میں کامیابی سے ’بادشاہ گری‘ کا رول ادا کر رہا ہے تم اس کی ’’گڈ بکس‘‘ میں رہو گے۔
’’اب آئیے اسی تناظر میں سجاد میر کا اگلا بیان اس وضاحت کے ساتھ کہ امریکہ جو کچھ بھی کر رہا تھا وہ چین کا تیزی سے ترقی کا سفر روکنا چاہتا تھا۔ ’’یہ نہیں کہ نواز شریف چین کا حامی اور امریکہ کا دشمن تھا اور نہ یہ کہنا درست ہو گا کہ عمران چین کا مخالف اور امریکہ کا دوست ہے یہ سب واقعات کی تیز رفتاری کی زد میں تھے‘‘۔قصہ مختصر ہمارے اٹھائے گئے وضاحتی سوال اور یہ زیرِ بحث مذکورہ سوال دونوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکمران پاکستان میں وہ کوئی بھی ہو امریکہ جب اپنے کسی مطلب کیلئے پاکستان کے حکمرانوں کا ہاتھ مروڑتا رہا تو حکمران ڈر کے مارے تابعداری کا رول ادا کرتے رہے ہیں۔ سب سے گھنائونا ، شرمناک اور بزدلانہ رول پرویز مشرف کا تھا جس نے اپنے کے پُرتعیش اقتدار کیلئے ملک کی تمام ڈور ہی امریکہ کے حوالے کر دی تھی افغانستان میں امریکہ نے جس سفاکی اور بربریت سے انسانی خونریزی کی اس میں اس شخص کا بھی حصہ تھا۔
دورِ حاضر میں حقیقی صورت حال یہ ہے کہ چین کی تیزی سے ترقی کا راستہ روکنے کے لئے امریکہ جو بند باندھ رہا ہے (ماضی میں ایسے بند باندھنے میں ویت نام اور کوریا میں بُری طرح ناکام ہوا ہے) وہ یہ ہے کہ بلاک قائم کر چکا ہے جس میں بھارت کی مرکزی حیثیت ہے اور جاپان اور آسٹریلیا اس کے معاون ہیں کیونکہ چین کا اصل اور قریب ترین خطرہ ان دونوں ملکوں کو ہی ہے۔ افغانستان میں امن کی تباہی مستقل فساد اور خانہ جنگی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ہر فورم پر پاکستان کے خلاف جو پراپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے وہ اسی دیرپا منصوبہ بندی اور ایجنڈا کا حصہ ہے۔ چین کے خلاف جو بلاک قائم کیا گیا ہے جس میں مرکزی حیثیت بھارت کی ہے اور وہ اس صورتِ حال سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے اس ردعمل کے طور پر نہیں کہ اس نے اربوں کی رقم افغانستان میں خرچ کی ہے بلکہ بھارت کے پائوں کے نیچے جو آگ دہک رہی ہے وہ یہ آمدہ حقیقت ہے کہ طالبان کا افغانستان پر مکمل قبضہ ہو جانے کے بعد جب بلاشرکتِ غیرے حکومت قائم ہو گی تو کشمیر بلاشبہ بھارت کے قبضے سے ایسے ہی نکل جائے گا جیسے افغانستان امریکہ کے قبضے سے نکلا ہے اسی لئے مغرب و مشرق میں آوازیں وسیع البنیاد حکومت کے حق میں اٹھائی جا رہی ہیں اس میں اصل دہائی تو بھارت کی ہے۔ پاکستان کو کوئی حماقت کرنے کی بجائے اس رخ پر مکمل خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
امریکہ جہاں تک ممکن ہے حسب سابق اور حسب عادت ہاتھ مروڑے گا عمل جاری رکھے گا چونکہ اس سے پہلے ماضی کی تاریخ میں امریکہ نے جب بھی پاکستان کے حکمرانوں کا ہاتھ مروڑا ، بڑی کامیابی سے اپنا مطلب حاصل کر لیا وہ اسی عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقتدار نہ دولت بنانے کیلئے حاصل کیا اور نہ ہی پاکستان کو اپنی ’’موروثیت‘‘ بنانے کیلئے۔ یقیناً وہ اس پر پورااترا ہے اب اس کا اہم ترین امتحان ہے وہ ثابت کر دے کہ امریکہ کے ہاتھ مروڑنے پر وہ محض اپنا اقتدار بچانے کیلئے کسی قسم کی غلامی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ لیکن ڈپلومیسی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر امریکہ کو اڈے دینے کا سوال اٹھایا گیا تھا تو ایسا غیر دانش مندانہ جذباتی جملہ Absolutely Not کہہ کر دشمن کو بھڑکا کی بجائے کہا جاتا ’’دوسروں کی جنگ میں بار بار کود کر پاکستانی سینکڑوں اربوں کا نقصان اٹھا کر اپنی اکانومی کا بیڑا غرق کر چکا ہے دوسروں کی لڑائی میں کود کر اپنے کئی لاکھ افراد کی قربانی دے چکا ہے انعام میں انہیں بظاہر دوست حلیفوں کے ہاتھوں اپنے ملک میں سینکڑوں دہشت گردیاں کروا چکا ہے۔ اب ایسی نقصان دہ حماقت ہرگز ہرگز نہیں کرے گا۔ ‘‘
جہاں تک اس پراپیگنڈہ سے Sanctions کا ڈر ہے اول تو یہ ڈر بے بنیاد ہے۔ یورپ اور امریکہ کو پاکستان کی زبردست Strategic position کا پورا پورا سیاسی شعور ہے وہ اسے کبھی یکسر خود سے الگ کر کے پورے کے پورے چین اور روس کی جھولی میں جانا برداشت نہیں کرینگے۔ پھر طالبان کی افغانستان میں حکومت قائم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد افغانستان کو غیر جانبدار اور آزاد رکھنے کی جدوجہد میں امریکہ اور یورپ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ورنہ افغانستان کے چین ، روس ، پاکستان اور ایران بلاک میں چلے جانے سے امریکہ کے قائم کردہ بلاک میں بھارت امریکہ کے لیے کسی کام کا نہ رہے گا جو بہت خطرناک حد تک موجودہ صورتِ حال میں اکیلا ہوتا نظر آ رہا ہے۔
بالفرض ان تمام Factors کی موجودگی کے باوجود امریکہ پاکستان پر Sanctions لگانے کی کوشش کرتا ہے تو چین کی موجودگی میں یو این کونسل کے ذریعے ایسا نہ کر سکے گا۔ اگر اس سے باہر باہر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایران ان Sanctions سے مرنہیں گیا پوری قوت سے زندہ ہے۔ یاد رہے موجودہ ابھرتی ہوئی بین الاقوامیت میں جو ڈر گیا سو مر گیا۔