نوجوان وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ شہبازشریف، بلا ول، مریم بی بی، فضل الرحمان ایک چوں چوںکا مربہ بن گیا ہے۔ ایک کی رائے اور دوسرے اور تیسرے کی رائے کیا ہے کچھ پتہ نہیں۔ پارٹیوں کے اندر لڑائیاں جاری ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں ٹاس ہو رہا ہے کہ قیادت کون کر ے گا۔ ایک ہفتے قیادت شہباز شریف، اگلے ہفتے مریم بی بی اور پھر ٹاس ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی قیادت کریں۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف قیادت کریں گے۔ حقیقت میں مسلم لیگ (ن) کے اندر لڑائی، جھگڑا اور فساد جاری ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سامنے نہیں آرہی ہے لیکن ہم انتظار کرینگے۔بات تو کسی حد تک دل کو لگتی ہے ماسوائے ٹاس والی بات کے مگر کنفیوژن ضرور ہے ، دوم یہ کہ بلاول بھٹو تو دوسرے ٹریک پر ہیں انہیںکسی نے کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے ــ’’کرتا دھرتا ‘‘ لوگ اب مسلم لیگ ن کو آنے نہیں دینگے ۔ یہ’’کرتا دھرتا ‘‘کا لفظ میں نے سینئر سیاست دان چوہدری شجاعت سے سے جدہ میںسیکھا مگر کچھ سمجھ نہ آیا ، میں آج تک عوام کو ہی کرتا دھرتا سمجھتا ہوں ۔ ، جب ق لیگ کے جمالی صاحب وزیر اعظم تھے اسوقت جدہ میں چوہدری شجاعت کے اعزاز میں جدہ کمیونٹی نے حالات حاضرہ جاننے کیلئے ایک ظہرانے کا اہتمام کیا ۔ اپنی تقریر میں چوہدری شجاعت نے کہا کہ ہماری جماعت ( ق لیگ ٰ) میں جمہوریت ہے ہمیں اقتدار کا لالچ نہیں جبکہ کرتا دھرتا لوگوں نے مجھ سے کہا تھا آپ جماعت کے سربراہ ہیں مگر میں وزیر اعظم نہ بنا اور اپنی جماعت کے میر ظفر اللہ جمالی کو وزارت عظمیٰ دلوادی، انکی تقریر کے بعد کھانا ہونا تھا میںسٹیج سیکرٹری تھا ، میں نے تقریب کے اختتام پر کہ ــ’’ چوہدری صاحب یہ کرتا دھرتا کون ہیں جنہوںنے آپکو وزیر اعظم بننے کو کہا تھا ، یہ کہہ کر مائک انکے ہاتھ میں تھما دیا ، چوہدری صاحب نے مائک پر ایک منٹ خاموشی رکھی پھر مائک ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ’’ چلوروٹی کھایئے ، خان صاحب کاپروگرام مجھے مروانے کا لگتا ہے ‘‘، یہ کنفیوژ ن کا ہونا ، استعفی دینا پہلے یا لانگ مارچ پہلے ، پی پی پی ، پی ڈیم ایم چھوڑ گئی ، پہلے معافی مانگے پھر ساتھ ساتھ جدوجہد کرینگے یہ سب بہانے بازیاں ہیں دراصل اب سڑکوںکے احتجاج کی سیاست ہو نہیں سکتی بے شمار عوامل کی وجہ سے ۔ خاص طور پر پی پی پی کی حکومت کے زمانے میں ہی ’’کرپشن ‘‘ کا لفظ متعارف ہوا تھا ، لفظ کرپشن کی بدنماء شکل mister 10 % تھا ، نیز انکی اپنی حکومتوں کی کارکردگی کیا رہی ہے ، پی پی پی تو آج تک برسراقتدار ہے ایک صوبے میں وہاں بھی دودھ کی نہریں آج تک نہ بہہ سکیں ، بقول موجودہ حکومت ن لیگ تو ٹھہری ہی کرپٹ لوگو ںکی جماعت ۔ چوں چوں کے مربے کی تشریح یوںبھی ہوسکتی تھی کہ ان تلوںمیںتیل نہیں چونکہ آج پاکستان کی سیاست ایک نیا رخ لے رہی ہے۔ ایک ایسا بیانیہ کھڑا کیا جارہا ہے کہ مزاحمت کرنا جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت بھی آرام سے بیٹھ کرکی جارہی ہے۔ یہ سارا سیاسی ماحول تحریک انصاف کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے اور قوی امکان ہے کہ عمران خان اس ملک کے پورے پانچ سال نہایت آرآم سے گزاریں گے ، یہ نجومی کی بات نہیں سامنے موجود حالات ہیں باقی پانچ سال کی باتیں بعد میں۔ایک زمانہ تھا جب پی پی پی کی مزاحمت ہوتی تھی جس کا پرچم بیگم نصرت بھٹو نے بلند کیا تھا مگر بدقسمتی سے اب یہ جماعت مفاہمت کی علامت بنتی جارہی ہے۔ سیاست میدانوںسے واپس ڈرائنگ روم منتقل ہوچکی ہے۔ ایک طرف آصف زرداری اور بلاول بھٹو مفاہمت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف شہباز شریف اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ میاں صاحب ویڈیو لنک سے مزاحمتی تحریک چلارہے ہیں۔کمال ہے ویسے ۔ ان13برسوں میں اگر یہ تین مقبول جماعتیں صرف جمہوریت کی بنیادوں کو ہی مضبوط کرتیں طلبہ، مزدور، عدلیہ اور میڈیا کو آزاد اور خود مختار بناتیں تو شاید طاقت کے توازن میں عوام کا کوئی عمل دخل ہوتا، سچ پوچھیں تو سویلین حکومتوں نے سویلین اداروں کو ہی کمزور کیا ہے۔ ایسے میں واحد امید پھر وہی نعرہ یاد آتا ہے حبیب جالب کا ’’چاروںجانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں‘‘۔ مجھے ایک چھوٹی سی مگر موثر 1978 ایپنک کی آزادی صحافت کی تحریک یاد آتی ہے جب مجھ سمیت بے شمار صحافیوںنے جیل ،بھوک ہڑتالیں بھگتیں، کچھ نے مارشل کے کوڑے بھی کھائے۔