یہ پہلا موقع نہیںتھا کہ میری بیٹی نے اپنے ننھے بیٹے کا بچا ہوا جوٹھا کھانا کھایا تھا ۔ میں نے کتنی ہی بار دیکھا تھا کو وہ اس کے چھوڑے ہوئے پھل اور چاول ۔۔بستر پر بکھرے بسکٹ کے ٹکڑے ۔ گلاس میں بچا ہوا پانی پی لیتی تھی وہ قالین پر اس کے گرائے انگور کے دانے بھی چن کر کھا لیتی تھی ۔۔ جیسے وہ بس اس کے پھیلائے ہوئے ہر معاملے کی ذمہ داری قبول کر رہی تھی ۔ ننھے نے گھر میں خوب اودھم مچا رکھا تھا ۔ میں ذرا سا جو کچھ بولی تو کہنے لگی۔
ماں فکر نہ کریں جو جو اس نے بکھیرا ہے میں سمیٹ کر جائوں گی ۔
سر شام ہی وہ بچوں کا سامان باندھ کر چلی گئی ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔ اس کا ایک سکارف، فون کا چارجر، ایک لنچ باکس اور ا دھوری چائے۔ وہ وہیں ٹیبل پر ہی چھوڑ گئی تھی ۔پگلی سمجھتی ہے کہ ہم نے اس کا بکھیرا ہوا سامان سمیٹنا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اس کی چھوڑی ہوئی چائے گرم کی اور پینے لگی ۔