غیرکشمیریوں کوووٹ کاحق 

Sep 09, 2022

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے غیر مقامی لوگوں کو ووٹ کا حق دینے کے فیصلے نے کشمیریوں کو ہلا کررکھ دیا۔اب اگلااقدام انہیں اپنے گھر چھوڑنے کیلیے کہا جا سکتا ہے،بھارتی حکومت کا ہدف جبری ڈیموگرافک تبدیلی، کشمیریوں پر قبضہ اور کشمیریوں کی سیاسی شناخت کو مٹانا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں کشمیر پرہرایک فیصلہ مودی سرکار نے کشمیری عوام کی رضامندی کے بغیر کیا ہے، غیر مقامی لوگوں کو ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ بی جے پی کے ایجنڈے سے کشمیر میں بی جے پی کی زیرقیادت حکومت تیار کرنا ہے جو 5اگست 2019 کے خود مختاری کو منسوخ کرنے اور ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلے کی باضابطہ توثیق کر سکتی ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں جبکہ ہندو تقریباً 28 فیصد ہیں۔ مودی کا مقصد اس مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ حد بندی کمشن نے 90 رکنی جموں و کشمیر اسمبلی میں جموں کو مزید چھ نشستیں دیں جبکہ کشمیر کو صرف ایک نشست دی گئی، یوں منصوبے کے تحت جموں کے پاس کل 43 نشستیں اورکشمیر کے پاس 47 رہ جائیں گی۔گا۔ باوجود کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 25لاکھ ہے جن میں سے وادی کشمیر کی آبادی 70 لاکھ تھی جبکہ جموں کی آبادی 5.3 ملین تھی، کشمیر کی موجودہ آبادی یقیناً زیادہ ہے۔ان میں سے 97فیصد مسلمان ہیں۔ آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلیے انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے، جسکی حتمی فہرست نومبر میں جاری ہونے کی امید ہے۔ اس اقدام سے76لاکھ موجودہ ووٹرز میں سے 25لاکھ مزید ووٹرز شامل ہوں گیجو کہ30فیصد اضافہ ہے۔نئے ووٹروں میں عارضی طور پر خطے میں مقیم ہندوستانی شامل ہوں گے، خاص طورپر ہندوستانی فوجی اہلکار، سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین، اور تارکین وطن اعلان میں کہا گیا کہ وہ تمام لوگ جو پہلے ووٹر کے طور پر اندراج نہیں کیے گئے تھے، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یونین ٹریٹری میں ‘دی ریپریزنٹیشن آف پیوپلز ایکٹ 1950 اور 1951 لاگو ہوا ہے جسکے تحت ملک کا کوئی بھی باشندہ یہاں کے کشمیراسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس اعلان سے اس سال کے آخر تک انتخابات منعقد ہونے کی تمام قیاس آرائیاں ختم ہو گئیں۔ 2018 میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت اْس وقت گر گئی جب بی جے پی نے سیاسی اتحاد توڑ دیا اور کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہو گیا۔بی جے پی جموں کشمیر میں تب تک الیکشن نہیں ہونے دے گی جب تک اسے یقین نہ ہو کہ اسمبلی میں اسکی اکثریت ہو گی اور اگلا وزیراعلیٰ نہ صرف جموں سے ہو گا بلکہ ایک ہندو سیاستدان ہو گا۔ 5اگست 2019 تک، ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ووٹنگ کے حقوق صرف اسکے مستقل باشندوں تک محدود تھے، جسکی ضمانت ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت دی گئی تھی، آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو اپناآئین بنانے کی اجازت تھی اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموںو کشمیر میں نہیں ہوتاہے۔ ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے۔آرٹیکل 35-A کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتااورریاست جموں و کشمیر میں صرف ریاستی باشندے ہی مستقل رہائش رکھ سکتے ہیں۔ بھارتی آئین کی اس شق کے خاتمے سے فلسطینیوں کی طرح اب کشمیریوں کابھی بے وطن ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے آرٹیکل 370کی منسوخی کا مقصد خطے کی آبادی کو تبدیل کرکے مقبوضہ وادی میں متعین 10لاکھ بھارتی فوجیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیناہے، اب وہ کشمیر سمیت جہاں تعینات ہیں وہ وہیں پر ووٹر لِسٹ میں اندراج کرواکر ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔غیر ریاستی لوگوں کو متنازعہ علاقے میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دینا اور خطے کے پرانے قوانین کو نظر انداز کرنا نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہندوستانی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔5 اگست2019 نے مقبوضہ کشمیر کی مظلوم تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا جس نے کشمیری عوام کی حالت زار میں شدت پیدا کردی۔کشمیر پر اقوام متحدہ کی 11 قراردادیں ہیں، جبکہ سلامتی کونسل کی قرارداد 38 کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازعہ کا کوئی بھی فریق کشمیر کی صورت حال میں مادی تبدیلی نہیں لا سکتا۔بھارتی حکومت کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور چوتھے جنیوا کنونشن کی واضح خلاف ورزی ہے۔

مزیدخبریں