علم حاصل کرنے سے علمیت،لیاقت و قابلیت پیدا ہوتی ہے۔ نتیجتاً ہم عصروں میں انفرادیت اور ممتاز حیثیت کنفرم ہو جاتی ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔ قارئین تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی بنیادی تعلیم کا حصہ بنایا وہاں معاشی ترقی کی رفتار بہت ذیادہ ہے۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق جاپان کے سرکاری دورے پر گئے تو انہوں نے وہاں کی حیرت انگیز ترقی سے متاثر ہوکر جاپانیوں سے ان کی ترقی کا راز دریافت کیا۔جاپانی ترجمان نے واضح کیا کہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے دوران چند جاپانی ساڑھے پانچ سو کلو میٹر سمندری سفر کرکے چین پہنچے۔ چین کے فنی ماہر استادوں سے ہنر کی نزاکتیں، باریکیاں اور نفاست سیکھی اور جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم مغرب سے حاصل کی اس طرح وہ دونوں علوم کے امتزاج سے ہنر مندی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے۔جاپانیوں کی فنی تعلیم کے سبب برق رفتار ترقی تو ایک سائیڈ پر رہی ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تعلیم ہر مسئلہ کا حل ہے۔ لیکن کڑوا سچ تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو دیکھ کر نئی نسل تعلیم سے اکتانے لگی ہے۔ چینی زبان میں ایک مثال ہے کہ’’آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔ اس سے وہ خود کفیل ہوگا۔‘‘ ہمارے لیے سب سے بڑی عبرت سری لنکا ہے کہ جس میں 98 فیصد شرح خواندگی ہے مگر پھر بھی بیروزگاری، پسماندگی نے اس ملک کو آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ وجہ صرف ایک ہے کہ انہوں نے عمومی تعلیم کے ساتھ فنی تعلیم کو یکسر فراموش کر دیا۔ قائدِ ملت محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے بعد فنی تربیت میں مہارت حاصل کرنے پر شدید زور دیا تاکہ ملک کی معاشی حالت کے مستقبل کو مضبوط بنایا جا سکے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم بدترین معاشی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر فارغ البالی کو اپنا وطیرہ بنا چکی ہے۔ لہٰذا وقت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں دلچسپ امور کی طرف موڑنا ہوگا۔ میرے نزدیک فنی تربیت سے بہتر کوئی اور حل نہیں ہو سکتا۔
یقین کیجئے کہ فنی تربیت کے شعبے پر توجہ دینے سے نہ صرف اندرونِ ملک روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں بلکہ اسکے فروغ سے ہم بیش قیمت رز مبادلہ کما سکتے ہیں جو ہمارے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ آج پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سے ایک بیروزگاری ہے مزید برآں یہ کہ کلائمٹ چینج کے نتیجے میں سیلاب کی تباہ کاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ پاکستان کو اب 2025ء تک شدید قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عوام الناس میں سے کثیر تعداد کی جمع پونجی، کھڑی فصلیں، مویشی سب بہہ گئے۔ سیلاب زدگان بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔کیا آپ نے سوچا ہے جب سیلاب کا پانی اتر جائے گا تو بیروزگاری کا گراف کس حد تک ہوگا۔ وہ لوگ جو اپنا مال و متاع گنوا بیٹھے ہیں وہ بچوں کی کفالت کیسے کرینگے۔یاد رکھئیے گا کہ نوجوان نسل جو کسی بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے، مایوسی اور کم ہمتی کا شکار ہو کر مستقبل کے معمار ایسی سرگرمیوں اور ایسے عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ملک میں معاشرتی بگاڑ کا موجب بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمومی تعلیم کے اداروں کے مقابل فنی تربیت کے اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہونے کی وجہ سے طلبہ و طالبات کی تعداد میں ہر سال بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ڈاکٹر، انجینئر بنانے کے خواب دیکھنے تک ہی محدود ہیں۔ انہیں ٹیکنیکل بنانے کا کوئی نہیں سوچتا !۔ معاشرے میں فرسٹریشن کی جڑ ہی بیکار اور فارغ رہنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتی شعبے کو تعلیمی اداروں کے ساتھ براہِ راست منسلک کیا جائے۔ نجی سیکٹر اپنے تئیں آپ یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے لیکن جب تک حکومت کی شراکت داری اور سرپرستی نجی سیکٹر کے ساتھ نہ ہو اس سلسلے کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔ حکومتی سطح پر تکنیکی کورسز اور تربیتی ورکشاپ کا اہتمام ہر سطح پر بے حد ضروری ہو چکا ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر نوجوانوں کو فنی تعلیم جیسے تھری ڈی ڈیزائننگ، فیشن ڈیزائننگ، الیکٹریکل اپلائنسز، موبائل ریپئرنگ اور سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ جیسے کورسز کی جانب راغب کرنا ازحد ضروری ہے۔ نیز ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کیمطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں ٹریننگ دے کر پیش آمدہ بیروزگاری سے منسلک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اربابِ اختیار سے استدعا ہے کہ سیلاب سے بیروزگاری اور اس سے ملحقہ کسی بڑے المیے پر قبل از وقت قابو پانے کیلئے ایمرجنسی طور پر ’’روزگار فنی تربیت‘‘ کے مراکز قائم کرنے کی منظوری دی جائے تاکہ اقوامِ عالم کے سامنے ہماری مینجمنٹ ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں گئیں کھیت‘‘والی مثال نہ بنے۔
ہنگامی طور پر فنی تربیت کی ترویج کیجئے
Sep 09, 2022