پاکستان کو ’’احسان مند‘‘  محسوس نہ کرتے افغان باشندے

Sep 09, 2022

نصرت جاوید

کرکٹ سے میرے مرجھائے دل کو رتی بھر دلچسپی نہیں۔ بدھ کی رات سونے سے قبل ٹویٹر پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین ایک میچ تھا۔کانٹے دار مقابلے کے بعد پاکستان آخری لمحات میں لگائے چھکوں کی بدولت جیت گیا۔یہ جیت مگر افغان تماشائیوں کو ہضم نہیں ہوئی۔سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لئے نصب نشستوں کو اکھاڑ کر وہاں موجود پاکستانیوں کی طرف اچھالنا شروع ہوگئے۔ٹویٹر پر چھائے پاکستانیوں کی ’’غیرت‘‘ افغان تماشائیوں کے رویے کی وجہ سے جوش میں آگئی۔ ’’نمک حرامی‘‘ کے طعنے کے ساتھ مطالبہ شروع ہوگیا کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو فی الفور ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔اپنے ہم وطنوں کا چراغ پا ہونا مجھے حیران کرگیا۔
بارہا اس کالم میں افغانستان کے پیشہ وارانہ امور کی خاطر ہوئے مختلف سفر کے دوران درپیش آئے میں نے کئی ذاتی واقعات بیان کئے ہیں۔مقصد ان کا آپ کو احساس دلانا تھا کہ افغان عوام کی اکثریت پاکستانیوں کو ناپسند کرتی ہے۔ حقیقت جو بھی رہی ہو اس ملک کا عام شہری شدت سے یہ محسوس کرتا ہے کہ 1980کی دہائی سے پاکستان افغان جہاد اور بعدازاں کئی برسوں تک جاری رہی خانہ جنگی کی بدولت اپنا ’’سیزن‘‘ لگاتا رہا ہے۔ اپنی تباہی اور بربادی کا حقیقی ذمہ دار وہ افغان فریقین کو نہیں بلکہ پاکستان کی پالیسیوںکو ٹھہراتے ہیں۔ان کی نفرت کا ٹھوس اظہار 1996میں کابل میں قیام کے دوران میرے روبرو آیا تھا۔
طالبان ان دنوں جنوبی افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد کابل کی جانب پیش قدمی کو تلے ہوئے تھے۔ایوان صدر میں تاہم برہان الدین ربانی ہی براجمان تھا۔افغانستان کے لئے نامزد پاکستانی سفیر نے اسے اسناد پیش کرنا تھی۔ اپنے ایک مرحوم ساتھی رپورٹر کے ساتھ میں بھی اس قافلے میں شامل ہوگیا جو اس غرض سے کابل جارہا تھا ۔اس شہر کے حالات بہت مخدوش تھے۔ہمیں مشورہ دیا گیا کہ کسی ہوٹل میں قیام کے بجائے پاکستان  کے سفارت خانے ہی میں رہا جائے۔ برطانیہ نے اپنے سامراجی عروج کے دور میں جس وسیع وعریض رقبے پر اپنا سفارت خانہ بنایا تھا وہ پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا۔وہاں رہائش کے لئے مختلف کمپائونڈ 1947سے قبل ہی تعمیر ہوچکے تھے۔پہاڑ کے دامن میں موجود یہ رقبہ منظم شجرکاری کی وجہ سے پھولوں کی وادی محسوس ہوتا۔
کامل یکسوئی سے طالبان کی پیش قدمی روکنے کے اقدامات اٹھانے کے بجائے احمد شاہ مسعود اور گل بدین حکمت یار کے حامی ایک دوسرے سے مختص علاقوں پر میزائل برسانے میں مصروف تھے۔کئی میزائل اکثر ’’بھٹک‘‘ کر ہمارے سفارتخانے کے چمن میں بھی گرجاتے۔ سفارت خانے کے چند ملازم اگرچہ مجھے سرگوشیوں میں بتاتے رہے کہ احمد شاہ مسعود کے حامی ’’پنجشیری‘‘ یہ میزائل جان بوجھ کر پاکستان کے سفار تخانے کی جانب اچھالتے ہیں۔سورج طلوع ہوتے ہی ہمارے سفارت خانے کے باہر لونڈوں کا ایک گروہ جمع ہوجاتا۔وہ پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے شام ہونے تک پتھر بھی پھینکتے رہتے۔ میں اور ضیا مرحوم سفارتخانے سے باہر نکل کر رپورٹروں کی ضد کے ساتھ پیدل بازار کا رُخ کرتے تو لونڈوں کا ایک گروہ ’’پنجابیان‘‘ کو گالیاں بکتا ہمارا تعاقب کرتا۔ اپنے مشاہدے کو انگریزی اخبار کے لئے لکھے کالم میں بیان کیا تو ہمارے کئی ’’ماہرین افغان امور‘‘ نے نہایت رعونت سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ کابل کے اکثر رہائشی غیر پشتون ہیں۔ ان کی اکثریت وادی پنجشیر سے تعلق رکھتی ہے۔وہ احمد شاہ مسعود کے حامی ہیں۔افغانستان کے پشتون ان کے مقابلے میں پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔میری بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ 2004میں چمن کے ذریعے میں قندھار پہنچا۔یہ شہر پشتونوں کا مرکز ہے۔ تحریک طالبان کا آغاز بھی اس علاقے سے ہوا تھا۔افغان پشتونوں کے تاریخی اور ثقافتی مرکز میں گزارے تین دن کے دوران کئی واقعات پیش آئے جنہوں نے اس علاقے میں بھی ’’پاکستان سے محبت‘‘ کو عیاں کردیا۔
مجھ جیسے منشی رپورٹرکے مشاہدے کو مگر وقعت نہیں دی جاتی۔ 1980کی دہائی سے ہماری سرکار نے پاکستانیوں کی اکثریت کو قائل کررکھا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف ہوئے ’’جہاد‘‘ نے پاکستان اور افغانستان کو بھائی-بھائی بنادیا ہے۔ دو اسلامی ممالک کے مابین گہراہوتا یہ بھائی چارہ ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہورہا۔ وہ اس کا توڑ ڈھونڈنے کی سازشیں رچاتے رہتے ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت سنجیدگی سے یہ محسوس کرتی ہے کہ افغانستان کے لاکھوں کنبوں کو ’’جہاد‘‘ کے دوران پناہ فراہم کرتے ہوئے ہم نے ’’انصار مدینہ‘‘ جیسا رویہ اختیار کیا۔افغان اگرچہ اس کی بابت ’’احسان مند‘‘ محسوس نہیں کرتے۔وہ اس امر کی بابت بے خبر نہیں کہ جبلی طورپر ہر افغان خود کو پاکستانیوں سے بالاتر سمجھتا ہے۔احمد شاہ ابدالی ان کے ہیرو ہیں۔ مغل سلطنت کے زوال کے دوران مرہٹہ افواج دلی پر قبضے کی تیاری کررہی تھیں۔ افغان ہی نہیں ہمارے کئی صالح مؤرخ بھی یہ سوچتے ہیں کہ پانی پت کی تیسری جنگ کی بدولت احمد شاہ ابدالی نے ہمارے خطے کے مسلمانوں کو ہندو مرہٹوں کی غلامی سے بچایا تھا۔ابدالی کے لگائے کئی ’’صوبے دار‘‘ سندھ اور پنجاب کے انگریزوں کی آمد سے قبل حکمران بھی رہے ہیں۔ مختصراََ اگر کوئی افغان خیبر سے اس پار آتا ہے تو خود کو ’’اپنے ہی ملک‘‘ میں قیام پذیر ہوا محسوس کرتا ہے۔اپنے میزائلوں کو غوری وغیرہ کا نام دیتے ہوئے ہم اس سوچ کو تقویت ہی پہنچاتے رہے ہیں۔
 1980کی دہائی سے عام افغان کے دل میں پاکستان کے خلاف جو جذبات ابھررہے تھے ہم ان کی بابت قطعاََ غافل رہے۔ہماری غفلت ہی اس غصے کا حقیقی سبب ہے جو بدھ کے روز افغانستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہوئے میچ کے اختتام کے بعد افغان تماشائیوں کے رویے کی وجہ سے ’’اچانک‘‘ابھرتا نظر آیا۔ اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ہم یہ حقیقت بھی نظرانداز کررہے ہیں کہ یورپ میں Football Hooligansبھی ہوتے ہیں۔جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے تاریخی حریف رہے ہیں۔ ان دوممالک کی ٹیموں کے مابین فٹ بال میچ ہورہا ہو تو دونوں ٹیموں کے حامی نوجوانوں کو قابو میں رکھنے کے لئے پولیس اور امن وامان یقینی بنانے والے اداروں کو حالت جنگ کی مانند چوکس رہنا پڑتا ہے۔متحدہ عرب امارات کی ریاست بہت طاقت ور ہے۔وہاں ہنگامہ آرائی کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ کرکٹ کے جنون نے مگر اب وہاں بھی اس کی راہ دکھادی ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ جدید ترین جاسوسی آلات کی مدد سے وہاں کی حکومت ہنگامہ آرائی کے مرتکب افراد کا بے رحمی سے سراغ لگائے گی۔ اس کے نتیجے میں بالآخر افغان تماشائیوں کی بھاری بھر کم تعداد کو سزائیں دینے کے علاوہ وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی ملے گا۔جذبات سے بپھرے نوجوانوں کا نصیب دِکھتی مصیبت کا ہمیں دردمندی سے احساس کرنا ہوگا۔

مزیدخبریں