ہمیں ہوا دیتے ”اپنے ہی پتے“ 

Sep 09, 2022

متحدہ عرب امارات میں جاری ایشیائی کھیلوں میں ہمیں تو ٹی ٹونٹی کرکٹ کے اہم مرحلہ میں بھارت کی گرین شرٹس کے ہاتھوں ٹھکائی پر سپورٹس مین سپرٹ کو تج کر دلی راحت محسوس ہورہی تھی۔ ہماری اس راحت کو سری لنکا کی ٹیم نے بھارتی سورماﺅں کو شارجہ کی کرکٹ گراﺅنڈ میں پچھاڑ کر چار چاند لگا دیئے اور بھارت کا فائنل میچ تک آنا ”اگر مگر“ کے ساتھ مشروط ہو گیا۔ آپ اسے بے شک میرے گمان کے کھاتے میں ڈال دیں کہ بھارت کو فائنل تک پہنچنے کیلئے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ امیدیں وابستہ ہوئی ہوں گی کہ وہ پاکستان سے اپنا میچ جیت لے تو اس سے بھارت کے فائنل تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار ہو جائیگی اور پاکستان سے شکست پر اٹھائی گئی اسکی ہزیمت کے اثرات بھی کم ہو جائینگے۔ اگر میرا یہ گمان ہی حقیقت ہو تو پھر بھارت نے پاکستان کو شکست دلوانے کیلئے افغانستان کرکٹ ٹیم کی ہمت بندھانے کی پوری منصوبہ بندی کی ہوگی اور افغان کھلاڑیوں کے اس ”جیت“ کیلئے باقاعدہ دام بھی لگائے ہونگے۔ مگر الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ ”دوا“ نے کام کیا کے مصداق پاکستان کے پرجوش کھلاڑیوں نے شارجہ کی گراﺅنڈ میں جاوید میاں داد کے چھکوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے افغان کھلاڑیوں کی دھنائی کردی اور نسیم شاہ نے یکے بعد دیگرے دو چھکے لگا کر افغانستان سے نہ صرف اسکی جیت چھین لی بلکہ پاکستان کو فائنل میں بھی پہنچا دیا۔ پاکستان کی اس جیت پر بیک وقت افغانستان اور بھارت میں صف ماتم بچھی ہوگی اور افغان کھلاڑیوں کو تو دہرا صدمہ ہوا ہوگا۔ ایک میچ ہارنے کا اور دوسرا منصوبہ بندی کے تحت بھارت سے متوقع طور پر حاصل ہونیوالی خطیر رقم کے کھونے کا۔ تو جناب! افغان کرکٹر غصے میں تھے تو اس کا یہی بنیادی پس منظر ہے۔ مگر انکے غصے پر ہمارے اندیشہ ہائے دور دراز کا سر اٹھانا بھی فطری امر ہے۔ 
ہمیں تو یہی خوش فہمی تھی کہ افغان کرکٹ ٹیم ہماری بنائی اور سدھائی ہوئی ہے اس لئے ایشیائی کھیلوں میں ٹی ٹونٹی کے فیصلہ کن میچ میں ہم سے ہار بھی جائیگی تو اسے کوئی زیادہ قلق نہیں ہوگا جبکہ پاکستان کا فائنل میں پہنچنا ایسا ہی ہوگا جیسے خود افغانستان فائنل تک آگیا ہو۔ مگر کھیل کے دوران اور کھیل کے اختتام پر افغان کھلاڑیوں اور میچ دیکھنے والے افغان باشندوں کے ہاتھوں شارجہ کی کرکٹ گراﺅنڈ میں اہل پاکستان کا کیا حشر ہوا۔ مجھے تو وہ مناظر دیکھنے کا بھی یارا نہیں کہ ہمارے جیسے خوش فہموں نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے افغانستان اور افغان باشندوں بالخصوص مجاہدین و طالبان کے ساتھ اپنی حد سے زیادہ رجائیت پسندی وابستہ کئے رکھی ہے۔ ہم تو اقبال کے فلسفہ ”افغان باقی‘ کہسار باقی“ کے ہمہ وقت حصار میں رہے ہیں اور اس ناطے سے ”مسلم برادرہڈ“ والا جذبہ ہمیں افغان بھائیوں کے ساتھ اپنائیت والے جذبے کا اسیر بناتا رہا ہے۔ جناب یہ تو ہمارا اپنا وصف و گمان ہے کہ ہم نے افغان بھائیوں کو انکے ہر مشکل کے لمحے میں گلے لگایا‘ انکی دامے‘ درمے‘ سخنے معاونت کی‘ انکی آزادی و بقاءاور افغان سرزمین کے امن و استحکام کی خاطر ہم ”رزمِ حق و باطل“ میں فولاد ہے مومن“ کی عملی مثال بنتے رہے۔ 
پانچ دہائیاں قبل سوویت یونین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کا آغاز ہوا جس میں امریکہ نے افغان مجاہدین کو اپنے لئے کارآمد ہتھیار بنایا تو ہم نے افغان عوام اور مجاہدین کیلئے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ ایک سروے کے مطابق عملاً تیس سے چالیس لاکھ افغان باشندے مہاجر بن کر ہماری سرزمین پر خیمہ زن ہوئے اور پھر ہماری دھرتی پر ان کا قیام اتنا طویل ہو گیا کہ ان مہاجرین کو پاکستان کے باقاعدہ شہری کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہاں رہنا‘ یہاں کھانا پینا اور کاروبار اور روزگار کی سہولت حاصل کرنا۔ حامد کرزئی کو بھی افتاد کے دنوں میں پاکستان کی سرزمین پر ہی پناہ ملی۔ ہمیں افغانیوں کی مہمان نوازی کے صلے میں کتنی امریکی معاونت حاصل ہوئی ہو گی یہ تحقیق طلب معاملہ ہے مگر افغانیوں نے ہمیں کلاشنکوف کلچر سے ضرور آشنا کر دیا۔ جس امریکہ نے روس کیخلاف سرد جنگ میں افغانیوں کی معاونت حاصل کی‘ اس جنگ کے خاتمہ اور اس میں کامیابی کے بعد امریکہ نے اپنے پالتو افغان مجاہدین کے ساتھ کیا سلوک کیا اسکی جھلک سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن کے اس انٹرویو میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ سرد جنگ کے نتیجہ میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے اپنے حلیف افغان مجاہدین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان کا یہ تاسف اس امر پر تھا کہ امریکی سرپرستی ختم ہونے کے بعد افغان مجاہدین طالبان کے قالب میں ڈھلے اور دہشت گرد بن کر ہمارے ہی درپے ہو گئے۔ 
آپ اس ایک مثال سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ امریکہ نے سرد جنگ میں پاکستان کی معاونت حاصل کرکے اس کو مالی طور پر مستحکم کرنے کیلئے کتنی عملی معاونت کی ہوگی۔ بھئی! ہم تو نائن الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی افغان جنگ میں بھی اسکے فرنٹ لائن اتحادی بن بیٹھے۔ امریکہ نے ہماری سرزمین پر پلنے والے حامد کرزئی کو ہی افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کی کمان سونپ دی جس کی ذمہ داری افغان سرزمین پر امریکی نیٹو افواج کو سرخرو کرانے کی تھی۔ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہا تھا یعنی اسے سرخرو کرانے کی تگ و دو میں تھا جس کے ردعمل میں اسے اپنے 80 ہزار کے شہریوں بشمول سکیورٹی فورسز کے ارکان کی جانوں کی قربانی دینا پڑی اور اپنی معیشت کیلئے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکہ کیلئے اس قربانی پر تو کرزئی کو پاکستان کیلئے دادوتحسین کے ڈونگرے برسانے چاہئیں تھے مگر انہوں نے احسان فراموشی کی انتہاءکرتے ہوئے پاکستان کو نہ صرف خود آنکھیں دکھانا شروع کر دیں بلکہ نیٹو فورسز کو پاکستان پر چڑھائی کرنے کی بھی باقاعدہ دعوت دینے لگے۔ 
پھر کابل کے تخت پر اشرف غنی براجمان ہوئے تو انکے دور میں افغانستان کے اندر سے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر بمباری کرنے اور باقاعدہ حملہ آور ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کرزئی تو کرزئی‘ اشرف غنی کی ڈوریاں بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت کی جانب سے ہلتی نظر آتی رہیں۔ الغرض امریکی فرنٹ لائن اتحادی کو جتنا نقصان امریکی کٹھ پتلی کابل حکومتوں کی جانب سے اٹھانا پڑا‘ وہ فرنٹ لائن اتحادی کے ساتھ طوطا چشمی کی نادر مثال ہے۔ ہمیں تو بس طالبان کی اقتدار میں واپسی کی صورت میں ہی افغانستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ملنے کی خوش فہمی تھی۔ اس کیلئے پاکستان نے افغانستان کو امن و استحکام والی سرزمین بنانے کی خاطر دنیا میں کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ شاید آنیوالا مو¿رخ اس کو بہتر طور پر بیان کر پائے گا۔ مگر ہمارے کردار اور کوششوں کے نتیجہ میں طالبان کے اقتدار کی راہ ہموار ہو گئی تو کابل کے اقتدار کا حصہ بننے والی طالبان قیادتوں نے باقاعدہ ہماری جانب منہ کرکے ہمارے اس کردار پر پھبتیاں کسنا شروع کر دیں اور پھر اقوام عالم نے سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے وہ دلدوز مناظر بھی دیکھے کہ طالبان لیڈران کس طرح جتھہ بند ہو کر افغان سرحد پر پاکستان کی جانب سے لگائی گئی باڑ جنونیت کے ساتھ اکھاڑتے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے پرچموں کو جلاتے ہوئے پاکستان کیخلاف اودھم مچاتے رہے۔ ہم پھر بھی طالبان کے افغانستان کے ساتھ خوش فہمی اور طالبان حکومت کیلئے رطب اللسان ہی رہے۔ اپنی اس رجائیت پسندی کا صلہ ہم نے گزشتہ شب شارجہ کی کرکٹ گراﺅنڈ میں افغان کرکٹروں کی انتہاءدرجے کی بدتمیزی کی صورت میں پالیا ہے تو اس میں اب گلہ کس کے ساتھ اور کیونکر کیا جائے۔ البتہ اپنے سدھائے ہوئے جانور کی جانب سے نقصان اٹھانے کا تاسف شاید اب ہمیں حقائق کی دنیا میں لے آئے۔ جناب! مسلم برادرہڈ کے یکطرفہ جذبے کو حرزجاں بنائے رکھنے کی بجائے حقائق کی دنیا میں لوٹ آئیے اور حقیقت یہی ہے کہ ہمارا برادر پڑوسی افغانستان کبھی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ اور اب تو اسکے وہ پتے بھی ہوا دینے لگے ہیں جن پر ہم تکیہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ 

مزیدخبریں