غیر ملکی کوچ این ایچ پی سی کی سہولیات سے متاثر لیکن؟؟؟؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کے تازہ تازہ غیر ملکی کوچز نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کی سہولیات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان غیر ملکی کوچز کے خیالات میڈیا اور شائقین تک پہنچائے ہیں۔ غیر ملکی کوچز بیانات بتاتے ہیں کہ ہائی پرفارمنس سنٹر کی سہولیات بہت شاندار ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سہولیات شاندار ہیں ویسے نہ بھی ہوں تو غیر ملکی کوچز کے پاس اس کے علاوہ کہنے کو کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاتھ وے پروگرام کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے پانچ غیر ملکی کوچز کی خدمات حاصل کی ہیں۔ یہ غیر ملکی کوچز پاتھ وے پروگرام میں شامل انڈر 13، انڈر 16 اور انڈر 19 کھلاڑیوں کی کوچنگ کریں گے۔ غیر ملکی کوچز میں گورڈن پارسنز، جولین فونٹین، جولین ووڈ، نکولس ویب اور ٹابی ریڈفرڈ شامل ہیں۔یاد رہے کی جولین فونٹین پاکستان ٹیم کے فیلڈنگ کوچ بھی رہ چکے ہیں۔ پاکستان ویمن  ٹیم کے غیر ملکی کوچ ڈیوڈ ہیمپ بھی دو سالہ معاہدہ ختم ہونے کے نظام سے الگ ہو چکے ہیں۔ کوچز پاتھ وے پروگرام میں شامل ایک سو سات  13، انڈر 16 اور انڈر 19 کھلاڑیوں کی کوچ گ کریں گے۔ پاکستان جونیئر لیگ میں منتخب ہونے والے کھلاڑی بھی غیر ملکی کوچز کیساتھ کام کریں گے۔ پاتھ وے پروگرام کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کے دل کے بہت قریب ہے، انہوں نے کھیل کا سامان بنانے والی ایک کمپنی کیساتھ بھی ایک معاہدہ کیا ہے۔ معاہدے کے مطابق کمپنی پاتھ وے پروگرام میں شریک کھلاڑیوں کو کھیل کا سامان مہیا کرے گی۔ رمیز راجہ کہتے ہیں کہ پاتھ وے پروگرام سے پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن ہوگا، مستقبل کے سٹارز کو بہترین کوچنگ اور ٹریننگ دی جائے گی۔ سپانسرز کیساتھ ہم نے ایک اہم سنگ میل مکمل کر لیا ہے اور اب اس پروگرام کو عملی شکل دے رہے ہیں۔ غیر ملکی کوچز کی آمد سپانسرز اور پی سی بی کے معاہدے کا اہم حصہ ہے۔
پاتھ وے پروگرام پر کئی سوالات ہوئے ہیں اسی طرح پی جے ایل پر بھی سوالات ہوتے رہے ہیں۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر جونیئر لیگ سپانسرز کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے ورنہ پی سی بی لیگ کے حقوق اپنے پاس رکھنے کے بجائے پاکستان سپر لیگ کی طرز پر فرنچائز کے ساتھ پہلا ایڈیشن کرواتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اسی طرح پاتھ وے پروگرام میں بھی مسائل ضرور موجود ہیں۔ کیا ملکی کرکٹ کو صرف ایک سو بچوں تک محدود کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کا حصہ بننے والوں کا مستقبل کیا ہو گا، کیا وہ فرسٹ کلاس ٹیموں میں جگہ بنا پائیں گے، اگر کوئی کرکٹر اس پروگرام کا حصہ نہیں بن پاتا وہ بعد میں کسی اور جگہ سے سامنے آتا ہے تو کیا اسے ترجیح دی جائے گی۔ اس طرح کے کئی سوالات ہیں لیکن تمام مسائل کے باوجود اچھی چیز صرف یہ ہے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم سو بچوں کو تو کرکٹ کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
جہاں تک تعلق تازہ غیر ملکی کوچز اور ان کے خیالات کا ہے اس نے ایک نئی بحث ضرور چھیڑی ہے۔ اگر ہائی پرفارمنس سنٹر کی سہولیات بہترین ہیں تو کیا ان سہولیات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، سہولیات بہترین ہیں تو شاہین آفریدی کیوں ری ہیب کیلئے ٹیم کیساتھ سفر کرتے رہے، سہولیات بہترین ہیں تو کیوں متبادل کھلاڑی سامنے نہیں آ رہے، کیوں پاکستان کے پاس فاسٹ باؤلنگ آل راؤنڈر نہیں ہے، کیوں ہم ایک آف سپنر تیار نہیں کر سکے۔ کیا ہمارے پاس سہولیات سے فائدہ اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں۔؟؟؟
نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کے ڈائریکٹر ندیم خان نے چھ ماہ میں تبدیلی کا دعویٰ کیا تھا انہیں لانے والے بدل گئے اس کے علاوہ تو کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکی۔ کھلاڑیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو سامنے آئے اور پھر غائب ہوئے کیا انہیں سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا یا متعلقہ افراد کھلاڑیوں کے مسائل کی نشاندہی اور خامیوں کو دور کروانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ہائی پرفارمنس سنٹر جسے کبھی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کہا جاتا تھا پاتھ وے پروگرام کی طرح کبھی رمیز راجہ کے دل کے بہت قریب ہوا کرتا تھا کاش بورڈ چیئرمین اس طرف توجہ دیں اور دیکھیں کہ بہترین سہولیات سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جا رہا۔

ای پیپر دی نیشن