تل ابیب (این این آئی)اسرائیل میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی وجہ سے پیدا ہونے والا بجران ایک نئے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے اسپیکر نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دوسری طرف اسرائیلی ریزرو فوج کے افسران اور قانونی ماہرین نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو مکتوب ارسال کیے ہیں جن میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ غرب اردن میں ذمہ داریاں ادا کرنے والا ہر سپاہی جنگی جرائم کی زد میں آ سکتا ہے اور یورپ کے سفر کے دوران اس کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کو اب تک مغربی کنارے میں اپنی کارروائیوں کے لیے قانونی تحفظ حاصل ہے۔ فوج، سپریم کورٹ اور انٹیلی جنس ادارے فوجیوں کی کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ فوج ان کی حمایت کرتی ہے۔ چونکہ یہ ایک طاقتور ادارہ ہے جس نے مغربی بین الاقوامی برادری میں اپنی اہمیت کا ثبوت دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی حکومتوں نے سابق اسرائیلی فوجی اہلکاروں کو گرفتار کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب بعض عدالتوں نے اسرائیلیوں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے مگر حکومتوں نے گرفتاری کو روکا اور استثنی دے دیا۔تاہم عدلیہ اور خاص طور پر سپریم کورٹ کو کمزور کرنے کے لیے حکومت کے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے بعد صورت حال بدل جائے گی۔ خاص طور پر جب سرکاری عہدیداروں، وزیر اعظم نیتن یاہو، سپیکر پارلیمنٹ امیر اوہانا اور دیگر نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تعمیل کے پابند نہیں۔ اس طرح کے بیانات کے بعد یورپ میں اسرائیلی فوجیوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔