پاکستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد جرنیل بیوروکریٹس اور بڑے تاجر و صنعت کار ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں۔ بڑے تاجر بوجوہ سیاسی لیڈروں پر اعتماد نہیں کرتے۔ ڈاکٹرائن حکمت عملی کو کہتے ہیں جو ہر آرمی چیف اپنا منصب سنبھالنے کے بعد تشکیل دیتا ہے۔ آسان فہم زبان میں ہم ڈاکٹرائن کو آرمی چیف کا بیانہ کہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے کم و بیش ہر آرمی چیف کی یہ رائے رہی ہے کہ سیاست دان نا اہل اور کرپٹ ہیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جنرل ایوب خان نے دس سال حکومت کی سیاست دانوں کو ایبڈو کیا مگر وہ پاکستان کو ایسا مستحکم نظام نہ دے سکے جس کا تسلسل جاری رہتا۔ ان کے دور میں ترقی ہوئی مگر 22 تاجر اور جاگیر دار خاندان 98 فیصد قومی دولت پر قابض ہو گئے۔ عوامی سطح پر شدید احساس محرومی نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔
جنرل ضیاءالحق نے قوم کو مذہبی بیانیہ دیا پاکستان کی بڑی قومی جماعت پی پی پی کو کچلنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ جنرل پرویز مشرف نے احتساب کا بیانیہ دیا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ جنرل راحیل شریف نے ’نو ڈو مور یو ڈو مور‘ کا بیانیہ دیا اور کہا کرپشن اور معیشت اکٹھے نہیں چل سکتے، جس میں وہ ایک حد تک کامیاب رہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ پاکستان کسی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر ایسے نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کو شدید ترین اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ 75 سال کے بعد پاکستان میں اعتماد کا فقدان سنگین اور تشویشناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ان سنگین حالات میں پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نیا ڈاکٹرائن (بیانیہ) دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دور آہ و فغاں میں خصوصی سرمایہ کاری کی سہولیاتی کونسل پارلیمان اور کابینہ کی منظوری سے تشکیل دی گئی تھی۔ آرمی چیف اس کونسل کے طاقتور رکن ہیں وہ اپنی اس حیثیت کو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے انھوں نے کراچی اور لاہور کے 100 بڑے تاجروں سے تفصیلی اور طویل ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں حکومتی ترجمان اور آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری نہیں کی اس لیے مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ آرمی چیف کی ملاقاتوں کے سلسلے میں ریٹنگ میں اضافے اور زیب داستان کے لیے گفتگو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف نے تاجروں کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے سعودی عرب، یو اے ای اور کویت سے 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری لائی جائے گی جس کے بعد پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ سمگلنگ کے خاتمے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی جائے گی۔ ریاستی اداروں میں ادارہ جاتی اصلاحات کرکے ان کو فعال بنایا جائے گا۔ سرخ فیتے والی پالیسی کو ختم کردیا جائے گا تاکہ ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ کراچی میں جرائم کے خاتمے اور کرپشن پر قابو پانے کے لیے فوری اور مو¿ثر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ کاروباری ماحول کو سازگار بنانے کے لیے ون ونڈو پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔ بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کیا جائے گا۔
مبینہ طور پر انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک بھی پاکستان سے مخلص نہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر حافظ قرآن ہیں، لہٰذا انھوں نے تاجروں سے ملاقات میں اپنی گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے درست کہا کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت تبدیل نہیں کرتا جسے اپنی حالت تبدیل کرنے کا خیال نہ ہو۔ ایمان اور تقویٰ پر عمل کرکے ہی ہم مشکلات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آرمی چیف نے علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے بھی دیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکر اقبال سے آگاہی رکھتے ہیں۔ آرمی چیف کی پر امید توقعات پر مختلف نوعیت کے اندیشوں اور تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ 75 سال کے دوران قوم نے فریب پر فریب کھائے ہیں جن کی وجہ سے اعتماد کا سنگین فقدان پیدا ہو چکا ہے۔ مایوسی اور نا امیدی غیر معمولی حد تک پہنچ چکی ہے۔ بقول شاعر
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے۔ وہ اس رکاوٹ کو کیسے عبور کریں گے، اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اعمال کی بنیاد نیت پر ہوتی ہے۔ اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم بھارت کی عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال کے سیاسی معجزے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ قرآن کی آیت ہے کہ ضرورت سے زیادہ اللہ کے راستے میں خرچ کر دو۔ اگر آرمی چیف قرآن کی اس آیت پر عمل کرکے ذاتی رول ماڈل پیش کرسکیں تو پاکستان کی کامیابیوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ پاکستان میں قانون کی طاقت سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لی جا سکی۔ اگر نیت نیک ہو تو ڈنڈے کی طاقت سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر پاکستانی قوم کو قرضوں کے شکنجے سے آ زاد کرایا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کرپٹ عناصر کو بلا تفریق بلا امتیاز نظر بند کر کے ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت طاقت کے زور پر واپس لی جائے تاکہ اعتماد کا فقدان ختم ہو سکے۔
٭....٭....٭