عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ڈنڈا مسئلے کا حل نہیں‘ مل بیٹھ کر معاشی بحران تلاش کرنا ہوگا۔

یہ تو طے شدہ فارمولہ ہے کہ ہر مسئلے کا حل ڈنڈا پیر نہیں ہوتا‘بڑی بڑی جنگوں کا نتیجہ دیکھ لیں‘ بالآخر سب کو مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھ کر معاملات طے کرنا پڑے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے‘ امریکہ اور افغانستان کے درمیان 20 سال کی طویل جنگ بالآخر مذاکرات سے ہی ختم ہوئی۔ ہزاروں جانیں گئیں‘ کھربوں روپے کانقصان الگ ہوا۔ اتنے تجربات کے باوجود دنیا کے کئی ملکوں میں جنگ و جدل اب بھی جاری ہے۔ ہاں مذاکرات کا عمل وہاں ناکام ہوتا ہے جہاں بھارت جیسے ہٹ دھرم موجود ہوں جو ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ اس کا حل بھی تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے ہاتھوں میں ہے جو اپنے اپنے سیاسی و ذاتی اختلافات بھلا کر ملک و قوم کی خاطر مل بیٹھ کر اس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا سوچ سکتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ تو پی ڈی ایم کی مجبوری تھی کہ اس نے ایک پارٹی کو ٹھکانے لگانے کیلئے اتحاد کرلیا تھا ورنہ شیر اور بکری کب ایک گھاٹ پر پانی پینے کے روادار ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے آئندہ چند ماہ میں انتخابی میدان بھی سج جائے۔ ظاہر ہے اس میں انتخابی جلسے بھی ہونگے‘ ہر پارٹی اپنے اپنے پلیٹ فارم پر عوام کو پھر سہانے خواب دکھانے کی کوشش کریگی اور اپنے مخالفین کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی‘ پھر نظر آئے گا کہ یہ اتحاد کتنا مضبوط تھا۔ اور پھر جو منتخب ہوگا‘ وہ کام کرنے کی کوشش کریگا اور اس کا مخالف اختلاف برائے اختلاف کے تحت اسے کام نہیں کرنے دیگا۔ گزشتہ پچاس 55 سال سے ملک میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو پایا۔ اس وقت بنگلہ دیش کا ٹکہ ہمارے روپے پر بھاری ہے‘ بنگلہ دیش دن رات ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ اپنی سیاسی جماعتوں کی چپقلش کی وجہ سے مسلسل پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ شیخ صاحب نے درست فرمایا کہ مل بیٹھ کر ہی مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب اگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا بھی چاہیں تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں سدھارنے کیلئے صدیاں درکار ہونگی۔ بہرحال کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔
 ہمتِ مرداں‘ مددِ خدا
٭....٭....٭
پاکستان میں زبردست اقتصادی صلاحیت موجود ہے‘ امریکی سفیر۔
کمال ہے‘ امریکی سفیر کو ہماری اقتصادی صلاحیتیں نظرآرہی ہیں‘ مگر ہمارے ماہرین اقتصادیات کو نجانے کیوں نظر نہیں آرہیں۔ دراصل ہمارے اقتصادی ماہرین کو آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں نے اپنی گھمن گھیریوں میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ ان بے چاروں کے پاس ملک کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ وہ ان سے قرض لینے اور قرض واپس کرنے کے جتن میں لگے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف تو ہم سے ڈنڈے کے زور پر اپنی شرائط منوا رہا ہے۔ نہ جانے ہماری کونسی کمزوریاں اسکے ہاتھ آئی ہوئی ہیں کہ ہم چوں چراں کئے بغیر اسکی ہر بات مانے چلے جا رہے ہیں۔ قوم احتجاجاً سڑکوں پر ہے‘ بجلی کے بل جلائے جارہے ہیں جبکہ حکمران بے بس نظر آرہے ہیں۔ کہتے ہیں آئی ایم ایف اجازت دیگا تو بلوں میں ریلیف دے سکیں گے ورنہ قوم کو ہر صورت بل ادا کرنے ہونگے چاہے انہیں گھر کا سامان ہی فروخت کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہمیں امریکی نائب وزیر دفاع رچرڈ آرمٹیج کی وہ دھمکی یاد آگئی جس میں انہوں نے ہمارے کمانڈو صدر کو تڑی لگائی تھی کہ اگر تم نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو تمہیں پتھر کے زمانے میں واپس لوٹا دیا جائیگا۔ اس دھمکی کے خوف سے ہم نے دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ میں اس کا اتنا کھل کر ساتھ دیا کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوگئے اور اسکے فرنٹ لائن اتحادی بن بیٹھے۔ آج ہم اسی وفاداری اور دوستی کو نبھانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ساتھ دینے پر ہماری یہ حالت کردی گئی‘ اگر ساتھ نہ دیتے تو نجانے ہمارا کیا حشر ہوتا۔ اس وقت امریکہ ہمیں عملاً پتھر کے زمانے کی طرف دھکیل چکا ہے۔ آج ہمارے پاس بجلی ہے‘ نہ گیس۔ پٹرول ہے مگر وہ بھی عام آدمی کی دسترس میں نہیں۔ بھوک ہر گھر میں ناچ رہی ہے‘ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں‘ بچوں پر ”برائے فروخت“ کے لیبل چسپاں ہیں‘ کئی جسم فروشی پر مجبور ہیں‘ ان حالات کے تناظر میں نجانے امریکی سفیر کو ہماری اقتصادی قابلیت کہاں سے نظر آرہی ہے۔ اگر انہیں واقعی ہماری اقتصادی صلاحیتیں نظر آرہی ہیں تو وہ انہیں بروئے کار لانے کا راستہ بھی بتا دیں ورنہ ہمارا مذاق نہ اڑائیں۔ 
٭٭٭
اسی طرح کا ایک بیان سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے بھی دیاہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں‘ مل کر آگے بڑھنا ہے۔ اگر انکی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان میں واقعی کسی چیز کی کمی نہیں‘ مگر ایک عام آدمی سے پوچھا جائے تو وہ راجہ صاحب کو ایسی ہزاروں بنیادی چیزیں گنوا دے گا جس سے وہ محروم ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے‘ اسکے تن پر کپڑا نہیں‘ رہنے کو چھت نہیں۔ ہاں اشرافیہ طبقات کیلئے اس ملک میں واقعی کسی چیز کی کمی نہیں۔ رہی بات مل کر آگے بڑھنے کی تو جناب‘ سرکاری مراعات لینے کیلئے یہ اکیلے ہی آگے بڑھ جاتے ہیں‘ انہیں ہر چیز مفت دستیاب ہے‘ اس میں وہ عوام کو کبھی اپنا حصہ دار نہیں بناتے۔ اس لحاظ سے عوام تو بے چارے خالی ہاتھ ہیں اور ان سے کوسوں دور ہیں۔ 
٭....٭....٭
افغانستان کا ایشیائی گیمز میں 17 خواتین کھلاڑیوں کو بھیجنے کا فیصلہ۔ 
یہ خبر اس افغانستان سے آئی ہے جہاں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے نہ دفتر و فیکٹری میں کام کرنے دیا جاتا ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری کویقین دہانی کرانے کے باوجود طالبان حکومت نے خواتین پر ہر قسم کی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھی خبر ہے‘ اس سے افغانستان کا ایک اچھا امیج دنیا کے سامنے اجاگر ہو گا۔ خواتین کے معاملے میں اسے مزید نرمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا‘ تب ہی وہ عالمی برادری کو مطمئن کر پائے گا اور عالمی برادری کی صف میں شامل ہو سکے گا۔ افغانستان کی اولمپک کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایشین گیمز میں حصے لینے والی افغان خواتین اتھلیٹس کی اب تک سب سے زیادہ تعداد ہے جس پر فخر ہے۔ 17 خواتین کی ٹیم جس میں اتھیلیٹس‘ سائیکلنگ اور والی بال کی کھلاڑی شامل ہیں‘ جنہوں نے گولڈ میڈل بھی حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ خواتین سائیکل اور والی بال کے کھیل میں بغیر برقعہ حصہ لیتی ہیں یا ٹوپی والا برقعہ پہن کر سائیکل چلاتی ہیں۔ افغانستان خواتین کے معاملے میں جتنا سخت گیر ہے‘ لگتا یہی ہے کہ ان تمام خواتین کو برقعہ پہن کر ہی کھیل میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی جو کھیلوں کے میدان میں ایک نیا ٹرینڈ بن کر سامنے آسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن