حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بچپن سے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ رہے اور آپ کے زیر سایہ ہی پروش پائی۔ اس لیے آپ کو کبھی بھی ذریعہ معاش کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوا تو آپ الگ مکان میں رہنے لگے تو پھر آپ کا معمول رہا کہ حلال کی روزی کی تلاش میں رہتے اور گزر بسر کرتے تھے اور دوسرے صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنی زندگی میں جو بھی پیشہ اختیار فرمایا اس میں رزق حلال ہی کمایا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو آدمی حلال مال سے اپنے اہل و عیال کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے اور جو آدمی مانگنے سے بچنے کے لیے رزق حلال تلاش کرتا ہے وہ شہدا ءکے درجہ میں ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی چالیس دن حلال رزق کھائے اللہ تعالی اس کے دل کو روشن کر دیتا ہے اور اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری کر دیتا ہے۔ ( احیا ءالعلوم )۔
بہیقی اور شعب الایمان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روزی کا حلال ذریعہ تلاش کر نا فرض کے بعد فرض ہے “۔
حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک قباحت والے کاموں کو چھوڑ کر ان پر نہ لگے جن میں کوئی مضائقہ نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کسب معاش چھوڑ کر یہ نہ کہنے لگے کہ اللہ تعالی نے جو کچھ پہنچانا ہے وہ دے گا بلکہ تمہیں رز ق حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے تو پھر وہ اسباب پیدا کرے گا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ موت کسی نہ کسی مقام پر آنی ہے۔ لیکن میرے نزدیک افضل ترین موت یہ ہے کہ بازار میں اپنے بال بچوں کے لیے کسب معاش میں مشغول ہو اور موت آ جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے دس درہم کا کپڑا خریداور اس میں ایک درہم حرام کا ہے تو اللہ تعالی اس آدمی کی نماز قبول نہیں کرے گا۔ پھر اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں داخل کر کے فرمایا، دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو۔ (بہیقی ، شعب الایمان )