اسلام آباد(خبرنگارخصوصی)خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کے پانچویں اجلاس میں معاشی و انتظامی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور ملکی معیشت کی ترقی کیلئے روڈ میپ وضع کیا گیا ہے جبکہ وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ نگراں حکومت کی قلیل مدت کے باوجود ہمیں معاشی بحالی کے منصوبے پر عملدآمد یقینی بنانا ہے،ان اقدامات کے نفاذ سے آئندہ منتخب حکومت کو بھی ملکی معیشت کی بحالی کے پروگرام پر عملدرآمد میں آسانی ہو گی۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرِ صدارت ملک کی معاشی بحالی، کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کا پانچواں اجلاس جمعہ کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔اجلاس میں آرمی چیف آرمی چیف سید عاصم منیر، عبوری وفاقی کابینہ، صوبائی وزرا اعلی اور متعلقہ اعلی سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں وفاقی وزرا نے متعلقہ شعبوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس کو ملک میں مقامی و بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹوں کے سدباب کیلئے لائحہ عمل سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں معاشی و انتظامی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور ملکی معیشت کی ترقی کیلئے روڈ میپ وضع کیا گیا۔اجلاس کو ریگولیشن کو مثر اور تیز بنانے کے جامع پلان پر بھی بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے قلیل، وسط اور طویل مدتی منصوبہ بندی پر مشاورت ہوئی۔ وزیرِاعظم نے اس حوالے سے عملی اقدامات کی منظوری دی اور ہدایت کی کہ ان پر عملدرآمد معینہ مدت میں یقینی بنایا جائے،وزرا ان اقدامات پر عمل یقینی بنائیں۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ نگران حکومت کی قلیل مدت کے باوجود ہمیں معاشی بحالی کے منصوبے پر عملدآمد یقینی بنانا ہے،ان اقدامات کے نفاذ سے آئندہ منتخب حکومت کو بھی ملکی معیشت کی بحالی کے پروگرام پر عملدرآمد میں آسانی ہوگی۔۔ ذرائع کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری سے متعلق امور کا جائزہ لیا۔ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔ ایپکس کمیٹی کا اجلاس آج دوبارہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) صنعت سمیت تمام شعبوں کے لیے گیس کی قیمتوں پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ ہر سال اس شعبہ مےں ساڑھے تین سو ارب روپے کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے، ملک کو اس سال مختلف ذرائع سے چھ ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے، سرکاری تحویل کے سرکاری اداروں کے لیے سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ قائم کر رہے ہیں، یہ یونٹ ان اداروں کی نجکاری کے لیے بھی کام کرے گا، ملک میں مہنگائی سپلائی چین کے بحران کے باعث ہے، سمگلنگ کوکو کم کرنا ہے، ملک کی صنعت کو چلانا اولین ترجیح ہے، صنعت چلے گی تو ملک کا پہیہ چلے گا۔ بجلی کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے ، یہ معاملہ حتمی مرحلے میں ہے اس ہفتہ کے اختتام تک پتہ چل جائے گا، بین الاقوامی معاہدات پر عمل درآمد جاری رہے گا، ان پر عمل درآمد کی وجہ سے جو نقصان ہو رہا ہے اس کی روک تھام پر بھی کونسل کے اجلاس میں بات چیت ہوئی۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر، وفاقی وزیر توانائی محمد علی، وفاقی وزیر تجارت اعجازگوہر اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا اجلاس آج بھی جاری رہے گا۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی غیر متوقع نہیں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا اگلا ریویو نومبر میں ہوگا۔ ورلڈ بینک کے قرضوں پر فاسٹ ٹریک لےں تو ورلڈ بینک سے وصولی ممکن ہے، توقع ہے 6 ارب ڈالر کا زر مبادلہ ملک میں آئے گا۔ تمام معاشی شعبے مل کر کام کریں گے، کابینہ کی کمیٹیاں فعال ہوگئی ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے مزید کہا کہ ہم سب ملکی معیشت کی ترقی کے لیے مخلصانہ کوشش کر رہے ہیں، معیشت کی بحالی کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معیشت کو بحال کرنا ہے، ہمیں امپورٹ پر پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا، ملک میں سمگلنگ کے حوالے سے سائز کا اندازہ نہیں، کرنسی اور اشیاءکی سمگلنگ کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی، ایکنک سمیت کابینہ کی تمام ذیلی کمیٹیوں کو ادارہ جاتی شکل دی جا چکی ہے اور ملک میں میکرو اکنامک مینجمنٹ کے فروغ اور اس سلسلے میں روڈ میپ تیار کرنے کے لیے اپنی مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو چالو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب اصلاحات کا پروگرام پر عمل درآمد ہوگا تو سوشل سیفٹی نیٹ پر بھی کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری تحویل کے کاروباری ادارے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، ان کے لیے سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ بنایا جا رہا ہے جو ان کی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ان کی نجکاری کے لیے بھی کام کرے گا، قرضوں میں کمی کے ساتھ ساتھ لنک کے ترسیلات کے اوپر بھی توجہ دینی ہوگی، ضروری ہے کہ صنعت کو بحال کیا جائے‘ ترسیلات زر بھی کم ہوئی ہیں ان کا اثر زر مبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے، فارن ایکسچینج کی مینجمنٹ ہماری ترجیح رہے گی‘ جو ڈیپازٹ ہمارے پاس موجود ہیں ان کے رول اوور پر بھی کام کریں گے۔ وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ 2022 میں پاکستان کی 78ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمدات ہوئی تھیں اور 32ارب ڈالر کی ریکارڈ برآمدات بھی ہوئی تھی جس سے ہماری تجارت کا مجموعی تخمینہ 110ارب ڈالر بنتا تھا، اس 78 ارب کے مقابلے میں ہمیں برآمدات اور ترسیلات زر کی مد میں 55 سے 56 ارب ڈالر ملے تو پچھلے سال حکومت پالیسی اپناتے ہوئے امپورٹس کو کنٹرول کیا اور درآمدات کو کم کر کے 55 ارب ڈالر تک لے آئی۔ درآمدات میں کمی سے خام مال اور ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس ساڑھے تین ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ ساتھ دیگر بھی کمی آئی اور اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 30ارب ڈالر کی مارکیٹ سکڑی، کیونکہ صنعت بند ہونے سے چیزیں مہنگی ہو گئیں۔ ملک میں جاری مہنگائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے جس کی بڑی وجہ سپلائی چین میں کمی تھی، جب درآمدات بڑھیں گی تو ایکسپورٹس کی صنعت کو اس کو پورا کرنے ہو گا اور اب ہمیں اپنی برآمدات 5ارب ڈالر سے بڑھانی ہیں تاکہ ہمارے ہاں نوکریاں پیدا ہوں۔ صنعت چلے گی تو ملک کا پہیہ چلے گا اور ملک کا کاروبار بڑھے گا، مہنگائی کا بحران بھی درآمدات بڑھانے سے کم ہو سکتا ہے، 300 کا ڈالر بھی 250 کا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اس بات پر بھی گفتگو ہوئی کہ سگلنگ سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے لہٰذا اسے کنٹرول کرنا ہے‘ وفاقی وزیر تجارت نے کہا کہ ملک کے لیے چینی بہت اہم ہے یکم ستمبر کو ملک کے اندر دو ملین ٹن چینی پڑی ہوئی تھی جبکہ ملک کے اندر ماہانہ کھپت چھ لاکھ میٹرک ٹن ہے، ملک کے اندر چینی کا سٹاک وافر ہے صرف ہمیں اس ملک سمگلنگ کو کنٹرول کرنا ہے‘ سمر گلنگ نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر توانائی محمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے کہ ہمیں گیس کے شعبے میں سالانہ 350ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، چار سال قبل یہ ایک ہزار ارب تھا اور اب سود کی رقم ملا کر یہ قرضہ 2700ارب کا ہو چکا ہے۔ ہمارے پاس قدرتی گیس کے ذخائر ہماری ضروریات سے کم ہیں تو ہم باہر سے دو ٹرمینل منگواتے ہیں، اگر ہم ان کا مکمل استعمال کریں تو بھی گیس کی قلت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے بعد ملک کے اندر گیس کم ہو گئی ہے، انہوں نے کہا کہ گیس سیکٹر کی ڈیویڈنڈ سکیم کے اوپر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے، ملک میں 10 کنسیشنز کی بڈنگ نومبر میں کھولی جائے گی، بجلی گیس کی چوری کو روکنا، ڈسکوز میں گورننس کو بہتر بنانا ہے‘ صوبوں سے بھی بات کرنا ہے کہ وہ انہیں لے لیں یا ان کی نجکاری کرنا ہے۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا احترام کرتی ہے اور ان پر عملدرآمد جاری رکھیں گے‘ خصوصی سرمایہ کاری کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری بڑھانا ہے، نجکاری، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ری سٹرکچرنگ، گردشی قرض کم کرنا ایجنڈے میں شامل تھا۔ سمگلنگ کی روک تھام پر کام کیا جا رہا ہے، ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔