”اُردو میں اسلامی ادب کی تحریک، فکری و ارتقائی مطالعہ“

سید روح الامین 
’اُردو میں اسلامی ادب کی تحریک، فکری و ارتقائی مطالعہ“ دراصل یہ ڈاکٹر صائمہ ذیشان کا پی ۔ایچ ۔ ڈی کا مقالہ ہے جِسے مکتبہ¿ تعمیر انسانیت اُردو بازار لاہور نے بطریق احسن شائع کیا ہے۔ کتابی صورت میں یہ مقالہ 478 صفحات پر محیط ہے۔ اس مقالے کی خاص اور منفرد حیثیت یہ ہے کہ اسے صائمہ ذیشان نے وطن عزیز کے معروف محقق، نابغہ¿ روزگار ڈاکٹر معین الدین عقیل کی زیر نگرانی مکمل کیا ہے۔ اُردو ادب میں ڈاکٹر معین الدین عقیل برصغیر پاک و ہند میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ماشاءاللہ (92) بانوے کتابوں کے ڈاکٹر صاحب مصنف و محقق ہیں۔ اس لحاظ سے صائمہ ذیشان خوش قسمت ہیں جن کو ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب جیسی شخصیت کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ صائمہ ذیشان ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بارے ”پیش لفظ“ میں رقمطراز ہیں: 
”میرے محترم اُستاد ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب ایک ایسے ہی راہبر اور محقق ہیں ، جن کی بے پناہ علمی قابلیت نے میرے خام ذہن کو تحقیق و جستجو کی منزل میں درست سمت کی جانب راہنمائی عطا کی۔ اس کے باوثوق ہونے میں شک نہیں کہ فی زمانہ ڈاکٹر صاحب جیسے اُستاد یکتائے روزگار اور نایاب و کم یاب ہیں جو اپنی عالمانہ اور جدید ترین علمی رجحانات سے واقفیت کے سبب تحقیق کے پیاسوں کو سیراب کرتے ہیں۔ بلاشک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب وہ اُستاد ہیں جو طالب علم کو دائرہ سکون سے باہر نکال کر ذہن افزودگی کی خوبی سے آراستگی کا ہنر خوب جانتے ہیں“
زیر نظر کتاب پیش لفظ اور مقدمہ کے علاوہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پیش لفظ اور مقدمہ دونوں مقالہ نگار نے خود تحریر کیے ہیں۔ بلاشبہ دونوں ہی مدلّل انداز میں ہیں۔ باب اوّل اسلامی ادب کی تحریک کا معاشرتی اور نظریاتی پسِ منظر ،جنوبی ایشیاءمیں اورنگ زیب کے عہد پر مشتمل ہے۔ باب دوم میں (الف) قیام پاکستان کے آس پاس اُردو ادب کی صورتِ حال -1 نثر -2 نظم (ب) ادیب اور قومی ذمہ داری کے تقاضے....نئی مملکتوں میں باب سوئم۔(الف) اسلامی ادب کی تحریک کا آغاز (ب) تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے آس پاس کی ادبی تحریک -1 ترقی پسند تحریک -2 حلقہ ارباب ذوق (ج) اسلامی ادب کی تحریک....بہ طور ردعمل (د) اسلامی ادب کی تحریک....بہ طور ضرورت اور باب چہارم میں اسلامی ادب کا بنیادی نظریہ (الف) مقاصد (ب) جہتیں کا تفصیلی بیان ہے۔ 
باب پنجم:اسلامی ادب کی تحریک: نثر اور نظم کا ارتقائی جائزہ (اہم اور نمائندہ ادیب و شاعر (ا) نمائندہ شاعروں کی خدمات -2 نمائندہ ادیبوں کی خدمات پر مشتمل ہے۔ آخر میں فہرستِ اسناد و محولہ (الف) شخصیات و کتب (ب) وسائل و جرائد درج ہیں۔ مقالہ نگار اپنے نگران اور اُستاد ڈاکٹر معین الدین عقیل کی بے پناہ علمی و ادبی حیثیت سے عقیدت مند بھی نظر آتی ہیں۔ لکھتی ہیں: ”بلاشبہ وہ علم کا راوی ہیں جو مینار پاکستان کی سرزمین کو علم کے جل سے سیراب کر رہا ہے۔ 
جمالِ ہم نشیں درمن اثر کرد
 وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم 
ان کے علاوہ وہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی بھی شکر گزار ہیں۔ اپنی دونوں بہنوں سیما اور شہلا کے علاوہ اپنے خاوند محمد ذیشان اختر کا بھی دلی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہیں۔مقالہ نگار نے پیش لفظ میں ہر باب کے بارے وضاحت بھی کی ہے۔ بخوفِ طوالت ہم مختصراً جائزہ پیش کرتے ہیں۔ مقالے کے ”باب اوّل“ میں تحقیق کا دائرہ بیسویں صدی میں ایسے معاشرتی نظام کے گرد گھومتا ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی خواہش بھی تھا اور ایک ٹھوس اور مدلّل نظریے پر قائم بھی تھا۔ ”باب دوم“ میں قیام پاکستان کے آس پاس اُردو نظم و نثر کی صورت حال اور ادباءکی ذمہ داریوں کو دائرہ تحقیق میں شامل کیا گیا ہے۔ 
”باب سوئم“ میں تحقیق کا زاویہ ایک خاص جانب کو جُھکا ہوا ہے اور وہ ہے اسلام کا انسانی ، تعمیری اور مقصدی تصور حیات جس کی بنیاد ”اسلامی ادب کی تحریک“ کے نام سے اُٹھائی گئی۔ اس باب میں تقابلی نقطہ نظر سے اول ترقی پسند تحریک کی قوت اور توانائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِن پہلوﺅں کی طرف نگاہ کی گئی ہے جنھوں نے طبقاتی شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک غیر طبقاتی انسانی سماج کا خواب دیکھا 
”باب چہارم“ میں تحقیق کا موضوع اسلامی ادب کے بنیادی نظرئیے اور اس کے مقاصد و جہتیں ہیں۔ اسلامی ادب کا بنیادی نظریہ ادب اور اس کے تعلق کے ضمن میں مذہب سے بحث کرنا ہے۔ یہ کبھی تو ضرورت بن جاتا ہے اور کبھی لازم۔ 
”باب پنجم“ میں اُردو ادب پر ایک خاص طرز میں تحقیق کی گئی ہے کہ اسلامی تحریک کے زیر اثر کس نوعیت کا ادب پروان چڑھا۔ اس ضمن میں اسلامی ادب کی تحریک کے نمائندہ ادباءاور شعراءکے تحقیقی مطالعے کو الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ 
ایک کالم میں کتاب کی تفصیلات کا ضبط تحریر میں لانا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ زیر نظر مقالہ نہ صرف طالب علموں اور اساتذہ کرام کے لیے بھی مستند حوالے کا درجہ رکھتا ہے جو تحقیق کے مسافر ہیں۔ آج کل نام نہاد تحقیق کے نام پر جامعات میں جس طرح مقالے بچوں سے لکھوا کر ’ڈگریاں“ بانٹی جا رہی ہیں۔ میری اپنی کتب کے حوالے سے ایم ۔ فل سطح کے ایسے مقالے ہوئے ہیں جنہیں ”تحقیقی“ کہنا بھی تحقیق کی توہین کے مترادف ہے۔ نمبر 1 اُستاد بذاتِ خود اس فنِ تحقیق سے نابلد نظر آتے ہیں۔ بہرحال زیرنظر مقالہ موضوع کے علاوہ تحقیق کے میدان میں بھی درخشاں باب کا اضافہ ہے۔ میری نظر میں اِسے جامعات کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے تاکہ طالب علموں کے علاوہ استاد بھی اس سے راہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ 
٭٭٭٭

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن