وجدان بلھے شاہ کانفرنس

Sep 09, 2024

عتیق انور راجا

آج قصور کو بلھے شاہ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے ۔بابا بلھے شاہ وہ صوفی شاعر ہے جسے سب سے زیادہ گایا جارہا ہے۔چلڈرن کمپلکس لائبریری ہال میں منعقدہ کانفرنس میں بلھے شاہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرپرسن وجدان ڈاکٹر صغرا صدف نے کہا بابا بلھے شاہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو عزت ،احترام اور مان دینے والا صوفی تھا۔آج کے پنجاب کا حال بلھے شاہ کے پنجاب سے بھی برا ہے ۔پاکستان بنانے اسے قائم رکھنے اور اس کے اخراجات اُٹھانے میں پنجاب کا کردار ہر دور میں سب سے زیادہ رہا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ آج تک پنجاب کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جب اپنے لوگوں کی بات کرے۔جو پنجابی ثقافت،زبان،رسم و رواج،اقدار اور حقوق کی بات کرے۔کوئی تو ایسا حکمران ہونا چاہیے جو پنجاب کی آبادی کے مطابق ٹی وی ،ریڈیو اور پرنٹ میڈیا میں اپنا حصہ طے کروائے۔بابا فرید کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے ایم ڈی لائبریری  احمد خاور شہزاد نے بابا بلھے شاہ کو سیکو لر کہا اور پھر وضاحت دی کہ اسلا م سب سے بڑا سیکولر مذہب ہے۔اس کا مثال نبی پاک ؐکے دور میں غیر مسلموں کے ساتھ رویہ تھا ۔عیسائیوں سے معائدے میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ عیسائی عورت کو مسلمان مرد سے شادی کے بعد بھی گرجا گھر جا سکے گی۔سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ہمیں آج بلھے شاہ کو سلیبریٹ کرنا چاہیے ۔ عرس کے موقع پر لاہور سے قصور تک لوگ لال سوئے چولے پہنے بھنگڑے ،دھمالیں اور بلھے شاہ کے اشعار پڑھتے جائیں۔بلھے شاہ انکار کا شاعر تھا۔پہلے سے بنے جہالت کے بتوں کا،ظالم حکمران کا،غلط رسموں کا،ذاتوں،رواجوں کا ،ظاہر پرستی کے رنگ کا انکار،یہاں تک بابا بلھے شاہ نے اپنی ذات تک کا انکار کردیا اور سید ہونے سے انکار کرتے ہوئے۔کہ جو انہیں سید کہے اسے دوزخ میں ڈالا جائے اور جو آپ کو ارائیں پکارے اسے جنت میں جگہ ملے۔
جس طرح کلمہ پڑھتے وقت سب سے پہلے ’لا‘نہیں کہا جاتا ہے۔اسی طرح بلھے  شاہ نے اپنے وقت کے سب بتوں کا انکار کیا۔بلھے شاہ کی شاعری میں تناو،احتجاج،حق تلفی کے خلاف بغاوت، ناانصافی کے خلاف علم بلند کرنا ہے۔بلھے شاہ کی شاعری اور فلسفہ کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ سمجھیں کہ جس دور میں آپ نے کلمہ حق بلند کیا تب حالات کیا تھے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستاں سے مغلوں کی حکومت عملی طور پر ختم ہو چکی تھی۔تخت دلی کے قاضی،سردار اور گورنر انصاف دینے کی بجائے لوگوں کے ساتھ ظلم کا رویہ اختیار کر چکے تھے۔سلطنت کے بہت سے حصوں پر برطانوی کمپنی اپنا تسلط قائم کر چکی تھی۔سکھوں کے مسلح جتھے اپنا راج بنانے کے لیے سرگرم تھے۔احمد شاہ ابدالی،نادر شاہ اور دوسرے حملہ آور پنجاب کی زرخیز زمینوں میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔اسی وقت بابا بلھے شاہ نے کہا کہ’’در کھلا حشر عذاب دا  برا حال  ہویاپنجاب دا‘‘بلھے شاہ نے جن حملہ آوروں کے ظلم کی بات کی ۔وائے حیرت ہمارے حکمرانوں نے  انہیںحملہ آوروں ،لٹیروں،ڈاکووں اور قاتلوں کو ہیرو بنا کے تعلیمی نصاب میں شامل کروایا ۔لگتا ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ،اشرافیہ،حکمران ،سرمایہ دار اور مولوی بابا بلھے شاہ سے ڈرتے ہیں۔س طرح اس زمانے میں بلھے شاہ تاریخ کا بھی انکاری تھا بلکل اسی طرح آج بھی ہمیں اپنی تاریخ درست کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیمی نصاب میں رائے احمد خاں کھرل،دلے بھٹی،بابا فرید،بلھے شاہ،شاہ حسین،وارث شاہ،غلام فرید،میاں محمد بخشؒ اور دوسرے صوفیا کو  ہیرو کے طور پڑھانا ہوگا۔اور پنجاب سے غداری کرکے انگریزوں سے جاگیریں لینے والوں،اس دھرتی کو لوٹنے والوں اور وسائل کی غلط تقسیم کرنے والوں کے بارے اسباق نصاب میں شامل کرنے ہوں گے۔کاش پنجاب کو کوئی ایک ایسا لیڈر مل جائے جو پنجابیت کی بات کرے،جو جرات سے پنجابی ہونے کا اقرار کرے۔جو چھوٹے بھائیوں کا ہر طرح خیال رکھے لیکن چھوٹوں کی غلطی پر انکی سرزنش بھی کرے۔یہ خوشی کی بات ہے کہ وزارت اعلی کا منصب سنبھالنے کے بعد مریم نواز شریف صاحبہ کئی بار خود کو پکی پنجابن کہہ چکی ہیں ۔لیکن ہائی کورٹ کے واضع احکامات کے باوجود پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پرائمری سے پنجابی زبان پڑھانے کا حکم نامہ جاری نہیں کرر ہیں۔بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کے قتل ہونے والے پنجابیوں کے لیے بھی محترمہ کی طرف سے سخت رد عمل کا قوم کو انتظار ہے ۔آج کے حکمرانوں اور دانشوروں کو یہ نقطہ سمجھنا ہوگا کہ جو قومیں اپنی زبان چھوڑ دیں ان کی تاریخ اور جغرافیہ تک بدل دیا جاتا ہے ۔اپنی تاریخ اور ورثے کو چھوڑنے والے ظالم کے آگے سرنگوں ہوجاتے ہیں اور سرمایہ دار  انہیں اپنا غلام بنالیتے ہیں۔
آج بھی پنجاب میں عذاب کا در کھلا ہوا ہے ۔سیاسی،مذہبی،انتظامی اور معاشی مسائل کو لے پنجاب کی سڑکیں بند کرنا معمول بن چکا ہے۔جس کا دل کرتا ہے مینار پاکستان جلسے کا اعلان کرکے لاہور شہر میں آنے جانے والوں اور رہنے والوں کے لیے مشکلات کھڑی کردیتا ہے۔احمد شاہ ابدالی گھروں سے مال و دولت لوٹتا تھا اور آج کے حکمران بلوں اور ٹیکسسز کی شکل میں لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔بلھے شاہ نے ملاّ کے بنائے ہوئے تصورِ دین سے سخت نفرت کا اظہار کیا اور عربی فارسی میں عالم ہونے کے باوجود انہوں نے رابطے کے لیے دھرتی کی زبان پنجابی میں اپنا کلام لکھا۔بابا بلھے شاہ اپنے عہد کے مذہبی ٹھیکیداروں، ملاّوں اور مفتیوں کے حوالے سے کہتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے ۔ بابا بلھے شاہ کا انتقال ہوا تو مولویوں اور مذہبی ٹھیکیداروں نے ان کا جنازہ پڑھانے  اور شہر  میں دفن کرنے سے انکار کر دیا۔اورآج اسی بلھے شاہ کے قدموں میں ان ملاوں کی اولادیں دفن ہونے کے لیے اجازت نامے طلب کررہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے ان سوداگروں کو پہچانیں اور خود مذہب کو صحیح معنوں میں سمجھیں ورنہ تو بلھے شاہ کی جنگ ان ملاّؤں سے صدیوں سے جاری ہے۔

مزیدخبریں