فیض کے سر چشمے اور ٹائم آف اسرائیل کی پکار

وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے بیشتر اکابرین اور مختلف ادوار کے رہنماؤں سے ایک جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان تا قیامت رہنے کے لیے بنا ہے اور انشاء اللہ بنا رہے گا اب جبکہ تخلیق پاکستان کو 78 سال ہونے کو ہیں اور اس سارے عرصہ کے دوران نت نئے انداز سے مسلط ہونے والی پراکسی وارداتیں جو کہ کھلی جنگوں سے بھی زیادہ مہلک اور نقصان دہ ہوتی ہیں کا مقابلہ کرتے ہوئے قوم اور ریاست کا بار بار سرخرو ہونا اور دشمن کے عزائم خاک میں ملا دینا یا پھر پاکستانیوں کی شکل میں دشمن کے کارندوں اور ایجنٹوں کا خود بخود ظاہر ہو جانا اس رب کی خصوصی مہر کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ ایک دشمنان  وطن کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور دوسری اللہ کی منصوبہ بندی ہوتی  ہے اور ہونا وہی ہے جو کہ کرشمہ ساز کرے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہی اس کی بڑی دشمن ہے اور پہلے روز سے ہی دشمنان پاکستان کا اکٹھ ایک نقطہ پر مرکوزو منتج ہے جس طرح سقوط ڈھاکہ ہوا خاک بدہن ویسا ہی وہ مرحلہ وار بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور سندھ کو اکائیوں کی صورت میں الگ الگ کر کے پاکستان کو صوبہ پنجاب تک محدود کر دیں اور یوں ان کی خواہش ناتمام کی تکمیل ہو سکے یہاں یہ  بات قابل ذکر ہے اور اہم ہے کہ پاکستان کے خلاف صرف ایک دشمن یعنی بھارت ہی چھرا کھونپنے کی بزدلانہ خواہش اور چالیں مرتب نہیں کرتا ہے بلکہ وہاں بین الاقوامی استعمار کا گٹھ جوڑ ایک منظم اتحاد کے ساتھ  اپنے فبیح  مشن میں مصروف عمل ہے اور مزید اہم یہ کہ اس گٹھ جوڑ میں حاصل شدہ ریکارڈ کے تحت صرف را ،موساد، سی آئی اے اور ایم آئی 16 ہی نظر نہیں آتی بلکہ قریبی برادر اسلامی ممالک کے تانے بانے بھی شامل ہیں جن سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ہضم نہیں ہو پاتی تو وہ بھی اس کار بد میں اپنا حصہ ڈالنے میں دیر نہیں لگاتے اس سارے منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ہمیں الٹے قدم چلتے ہوئے اس تاریخی دور میں جانا ہوگاجب سامراجیوں کو 1969 میں دنیا کی پہلی اسلامی تنظیم او آئی سی کا قیام ایک انکھ نہ بھایا اور اس سے قبل امریکہ اور مغرب کی ناجائز اولاد اسرائیل کی حمایت اور عرب کی مخالفت سے عرب اتحاد کا خواب چکنا چور ہو چکا تھا لیکن 1967 میں ہی اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم  ڈیوڈ بن گوریان کے  مصر اور شام کیمصنوعی اور ڈرامائی اتحاد کے ٹوٹنے اور عربوں سے جنگ کے بعد جو بیان دیا اس کی گونج اور اثر ابھی تک پاکستان میں موجود ہے ’’اس جنگ کے بعد عرب کبھی متحد ہو کر ہمارے لیے خطرہ نہیں بنے گا مگر ایک اور اسلامی ملک ہمارے لیے چیلنج ہے اور وہ ہے پاکستان‘‘ اور اس بیان کے چار سال بعد سقوط ڈھاکہ رونما ہو گیا پھر 1974 میں ایک یہودی کی ناپاک جسارت نے جب مسلمان نے دنیا کو ایک بار پھر اکٹھا کیا تو اس بار او آئی سی کا دوسرا اجلاس 1974 لاہور پاکستان میں منعقد ہوا اس سمٹ کانفرنس نے اسلام دشمن استعمار کی نیندوں کو مزید اڑا دیا تو انہوں نے پھر مرحلہ وار نہ صرف نمایاں اسلامی لیڈران کو غیر فطری طور پر ان کی زندگیوں سے محروم کر دیا بلکہ ان کی ریاستوں کو دفاعی لحاظ سے اتنا لاغر اور کمزور کر دیا کہ وہ آج بھی کئی دہائیوں بعد سنبھل نہیں پا رہے۔ 
شام مصر عراق لیبیا زمین کا ٹکڑا تو ہیں مگر باوقار خود مختار اور آزاد ریاست ہرگز نہیں ہیں  جبکہ دوسری جانب پاکستان کو مزید کمزور سے کمزور کرنے کے لیے نئے سے نئے پراکسی منصوبہ جات بنائے گئے۔ ویسے تو پاکستان میں کئی سیاہ دور گزرے ہیں لیکن مشرف کے دور حکومت کو پاکستان کا سیاہ ترین دور قرار دیا جانا چاہیے جہاں پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنا دیا گیا تھا اور یہاں تک کہ 2000 میں جنرل مشرف اپنے عروج پر تھا تو پینٹاگون سے ایک متنازعہ پاکستانی نقشہ بھی لیک ہوا تھا جس میں 2012 کا پاکستان دکھایا گیا تھا جو کہ صرف پنجاب پر مشتمل تھا جبکہ باقی صوبے الگ الگ ملک دکھائے گئے تھے۔یاد رہے کہ پاکستان کیونکہ ایک ایٹمی طاقت بن چکا تھا اس لیے سامراجیوں سے مذکورہ اسلامی ممالک کی طرح پاکستان کو نشان عبرت بنانا آسان نہ تھا اور الحمدللہ کبھی ہوگا بھی نہیں لیکن ہمیں ان استعماری قوتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے ہمیں افغان ایران اور بھارت کے بارڈرز پر الجھا کر جہاں اتنا ماہربنا دیا وہاں اندرون ملک انکے لیے کام کرنیوالے کو پہچانا اور قابو کرنا سکھا دیا۔
 9 مئی کا واقعہ اور ایک سال کے عرصہ کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں عمران اور فیض نیٹ ورک کی ملک دشمن ریشہ دوانیوں کو منظر عام پر لانا اور ان کو کٹہرا میں کھڑا کرنا یقیناً کسی ماہر فوج اور ریاست کا ہی کام ہو سکتا ہے جو کہ کئی محاذوں اور جنگوں میں الجھنے کے باوجود ان کالی بھیڑوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ 2018 سے 2024 تک عمران اور اسکے حواریوں کے فیض کے چشموں سے استفادہ  ہوتے ہوئے ریاست مخالف سرگرمیوں کو کسی بھی لحاظ سے جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔ عمران کی صدارتی نظام کی خواہش اور فیض کی چیف آف آرمی سٹاف بننے کی باہمی خواہش اور باہمی سہولت کاری اور جس کے نتیجے میں پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کو داؤ پر  لگانے والے یقینی طور پر محب وطن نہیں ہو سکتے۔ حالیہ یوم دفاع پاکستان کے موقع پر جنرل عاصم منیر کا قوم سے خطاب اور اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر چوہدری شریف کی پریس کانفرنس اس بات کا عندیہ ہے کہ اپنے اقتدار کی خاطر ریاست کے خلاف سازشیں کرنے والے اور ریاست کے اندر ریاست بنانے  کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو کہ غدار کے ساتھ کیا جاتا ہے اور کیا جانا بھی چاہیے۔ بالخصوص اس وقت جب پاکستان کو ہر روز ایک نئی جنگ کا سامنا ہے۔جہاں فوج کا اولین فرض ریاست کا دفاع ہے نہ کہ سیاسی مقاصد کا حصول لیکن ملک دشمن قوتیں بغاوت کو سیاست میں گڈمڈ کر کے نیا بیانیہ بنا کر اصل ذمہ داران کوسزا سے بچانا چاہتی ہیں تاکہ ان کا کام چلتا رہے اور وہ ان کے آلہ کار بنے رہیں اور اپنی منافقت کے جوہر دکھاتے رہیں۔
ویسے تو گولڈ سمتھ فیملی کو لے کر عمران کو روز اول سے ہی یہودی لابی کے پروجیکٹ کا الزام دیا جاتا رہا ہے اب جب کہ حالیہ دنوں ٹائمز اف اسرائیل میں عمران کی حمایت میں چھپنے والے آرٹیکل نے عمران کی شخصیت کو مزید مشکوک کر دیا ہے اور 1967 کے اسرائیلی  وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان پاکستان دشمن پالیسی بیان کا آئینہ دار ہے۔اب یہ عمران نیازی پر منحصر ہے کہ وہ اس کی وضاحت کیسے دیتے ہیں اور وہ کیسے ان الزامات سے بچ نکلتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ فیض کے چشموں کے نتیجے میں ہونے والی سزاؤں سے کبھی بھی نہیں بچ پائیں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن