سرقہ (چوری) حرابہ (فساد و دہشت گردی) ان میں ہم پیش پیش ہیں۔ فراڈ دھوکہ دہی میں ماسٹر ہیں۔ تاجر حضرات نے ناپ تول کے پیمانوں میں ہیراپھیری میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ شوارمے، زنگر برگرز، پیزا میں مری مرغیوں اور دیگر مردار کا گوشت عوام کو کھلایا جاتا ہے۔ رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ایسے کی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ ٹرولنگ کرنے والے اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ جیسے روز محشر ہم سے باز پرس نہیں ہوگی۔
قارئین یہ تو چیدہ چیدہ برائیاں ہیں جن کا تذکرہ کیا ہے ان خباثتوں کی تعداد اتنی ہے کہ شاید قرطاس کم پڑ جائیں۔ پھر بھی ہم اپنے آپ کو شفاعت کے حقدار ڈیکلئیر کرتے ہیں۔ قیامت کا دن بہت ہولناک ہوگا۔ اس نفسانفسی کے عالم میں نبی کریمﷺ ہی وہ واحد شخصیت ہونگے جو ہمارے حق میں شفاعت فرمائیں گے لہٰذا اپنے اخلاقیات کو درست کیجئے کہ کہیں ایسا نہ ہو نبی کریمﷺ آپ سے رخ مبارک پھیر لیں۔ جامع ترمذی کی حدیث نبیؐکی شفاعت کا خاکہ کچھ یوں پیش کرتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپؐ کو دستی کاگوشت دیاگیا جوکہ آپؐ کو بہت پسند تھا، اسے آپؐ نے تناول فرمایا، پھر فرمایا: ’’قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا، کیاتم لوگوں کو اسکی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہرنگاہ والادیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم وکرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے۔
لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا‘ آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، یقینا اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا، لیکن میں نے اسکی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جائو، نوح علیہ السلام کے پا س جائو۔
چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے ، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرارب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جائو‘ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائو۔
چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ابراہیم علیہ السلام ! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے۔۔۔
قصہ مختصر: لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے عیسیٰ علیہ السلام ! آپ اللہ کے رسول، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گودہی میں کلام کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرارب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہاکہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جائو، محمدؐ کے پاس جائو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمدؐ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے محمدؐ ! آپؐ اللہ کے رسول اور اسکے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، (آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گرجائوں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دیگا کہ مجھ سے پہلے اتناکسی پر نہیں کھولا ہوگا۔
پھر مجھ سے کہاجائیگا کہ اے محمدؐ! اپنے سرکو اٹھائو اور سوال کرو، اسے پورا کیا جائیگا اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائیگی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھائوں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات وفلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمدؐ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں، جن پر کوئی حساب وکتاب نہیں ہے اور یہ سب (امت محمدؐ) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔‘‘
٭…٭…٭