تونسہ سے تعلق رکھنے والے سرائیکی کے شاعر فرہاد ہیروی نے کہا ہے کہ کافی اور دوہڑا میری پیدائش سے پہلے مر چکے تھے اب میں انہیں کیسے زندہ کر سکتا ہوں۔ وہ کافی اور دوہڑے پر خامہ فرسائی نہ کرنے کی وضاحت کر رہے تھے۔ کچھ ایسی ہی رائے با اصول سیاست کے بارے میں آج کا سیاسی کارکن اور لیڈر رکھتا ہے۔ وہ بے لوث اور دیانتدار سیاست کو آج کے زمانے کے بس کی بات ہی نہیں سمجھتا۔ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کونے سے یہ بیباکانہ اظہار بھی سننے میں آجاتا ہے کہ اگر آج حضرت قائد اعظم اور مولانا حسرت موہانی زندہ ہوتے تو دونوں یقینا ناکام سیاستدان ثابت ہوتے۔ یہ بات کچھ ان پڑھ لوگوں سے ہی خاص نہیں، ایئر مارشل اصغر خاں سیاست میں تمام زمانہ پاکدامنی کے ساتھ ہی کھڑے رہے۔ انہیں ایک مرتبہ لاہور ہائیکورٹ بار میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ اصغر خاں تقریر کیلئے کھڑے ہوئے لیکن ان کے بولنے سے پہلے ہی ایک شخص نے کھڑے ہو کر بولنا شروع کر دیا۔ اس کا کہنا تھا۔ ہم آپ کی تقریر کیوں سنیں؟ جبکہ آپ ایک ناکام سیاستدان ہیں۔ ملک معراج خالد ایک اجلے سیاستدان تھے۔ کرپشن کا کوئی داغ دھبہ ان کے دامن پر نہیں تھا۔ وہ پنجاب کی چیف منسٹری سے لے کر انٹیرم وزیر اعظم پاکستان کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ لیکن ان کی بود باش نہ بدلی۔ سادگی ان کی زندگی کا شعار رہا۔ بچوں کو خود اسکول جانے میں انہیں کوئی عار نہیں تھا۔ ریگل چوک لاہور کے ایک فلیٹ میں اقتدار آنے سے پہلے اور اقتدار جانے کے بعد تک زیست بسر کرتے رہے۔ ان کی زوجہ محترمہ اسی طرح درس و تدریس کے مقدس پیشہ سے وابستہ رہیں۔ ملک معراج خالد کے انتخابی حریف، انتخابی جلسوں میں انہیں ناکام سیاستدان قرار دیتے تھے۔ وہ انتخابی تقریروں میں برملا کہتے۔ جو شخص اپنا کچھ نہیں بنا سکا وہ آپ کے کیا کام آئیگا۔ دوسری جانب اصغر خاں کو سرے سے کبھی اقتدار ملا ہی نہیں۔ اپنے سیاسی عروج کے دنوں میں یہ بیچارے امریکہ کے خلیفہ مجاز شاہ ایران رضا شاہ پہلوی سے بس ملتے ملاتے ہی رہ گئے۔ جاوید ہاشمی سے لے کر نواب اکبر بگٹی تک اور شیخ رشید سے لے کر میاں نواز شریف تک بہت سے اہم لوگ ان کی جماعت میں شامل رہے۔ لیکن اقتدار صرف اسے حاصل ہوا جو انہیں چھوڑ بھاگ نکلا۔ پاک فضائیہ کی تعمیر و تربیت میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ اصغر خاں اور معراج خالد دونوں کو ہی ناکام سیاستدان قرار دیا جاتا ہے۔ سیاست میں پیسہ نہ کمانا اور دیانتداری ان دونوں سیاستدانوں کا بنیادی وصف سمجھا جاتا رہا۔ ثابت ہوا کہ سیاست میں ڈھیروں مال منال اکٹھا کرنا ہی کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ زبان خلق نقارہ خدا۔ ہر ضلع میں کوئی ایک آدھ ایسا ممبر اسمبلی مل جاتا ہے جس کی اپنے حلقہ کے تعمیراتی کاموں میں ٹھیکیداروں سے کمیشن نہ لینے کی شہرت ہو۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ آخر کوئی تو ان کے حصہ کی کمیشن تو لیتا ہوگا۔ پھر پوری باقاعدگی سے اپنے ٹھیکیداروں سے اپنا حصہ لینے والے کب اسمبلی نہیں پہنچتے؟ہندوستان کے عرفان صدیقی نے اپنے شعر میں کیا حقیقت کھول دی ہے۔
یہاں کسی کا وفادار کیوں رہے کوئی
کہ جو وفا کا صلہ ہے وہی ہوس کا ہے
انسانی زندگی مختصر سہی اس کا اظہار فیض یوں کرتے ہیں: ’دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے، پہلے مصرعے میں وہ یہ ارمان بیان کرتے ہیں کہ اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن‘۔ بہر حال انسانی خواہشات ہر گز مخت صر نہیں ہوتیں، انہیں ایک حد حساب میں رکھنا پ ڑتا ہے۔ یہی پارسائی ہے اور یہی فقر ہے۔ فقر محدود وسائل میں محدود خواہشات کے ساتھ قناعت سے زندگی بسر کرنے کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ لازم ہے کہ زندگی کی اس سادگی میں کسی نوع کا احساس کمتری نہ ہو۔ غالب اپنے مٹی کے پیالے کو جام جم سے کم نہیں سمجھتے۔ دیکھئے! اس میں کیا خوبی نکالتے ہیں۔
اور لے آئے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جام جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
زندگی کے سفر میں مختصر خواہشات کا اظہار مرزا غالب نے اپنے ہرگوپال تفتہ کے نام خط میں یوں کیا ہے:’’زیست بسر کرنے کو تھوڑی سی راحت درکار ہے، باقی حکمت اور سلطنت اور شاعری اور ساحری سب خرابات ہے۔ ہندؤں میں اگر اوتار ہوا تو کیا؟ مسلمانوں میں ولی بنا تو کیا؟دنیا میں نامور ہوئے تو کیا؟ گمنام جئے تو کیا؟ کچھ معاش ہو، کچھ صحت جسمانی، باقی سب وہم ہے اے یار جانی‘‘۔ غالب غالب تھے۔ اپنے ڈھب طور طریقے سے زندگی بسر کر گئے۔ پروفیسر علی عباس جلالپوری نے ’’رسوم اقوام‘‘ میں لکھا ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں عجیب و غریب رسوم ہیں۔ جیسے ہندوستان میں کسی مقروض کی نعش کو قرض خواہ اس وقت تک دفن نہیں کرنے دیتے تھے جب تک ان کے قرضے کا حساب بیباک نہ ہوجائے۔ جیسا کہ مقروض مرزا غالب کی نعش کو دفن کرنے سے روک دیا گیاتھا۔ پھر اس کے دوستوں اور مداحوں نے اس کے قرضے کی ادائیگی کا بندوبست کر کے اسے قبر میں اتارا۔
ایک انتہائی دیانتدار پولیس افسر کے بارے میں اسکے ناخلف بیٹے کی رائے کچھ عجیب سی تھی۔ ’’میرے والد انتہائی خود غرض اور لالچی انسان تھے۔ ان کے دل میں دوسروں کے لئے رتی برابر احسان اور ایثار کے جذبات نہیں تھے۔ حتیٰ کہ اکیلی اپنی عاقبت کے شوق میں انہوں نے اپنے سارے خاندان کی دنیا خراب کر کے رکھ دی‘‘۔
پچھلے دنوں ایک پولیس افسر کے بارے میں ایک خبر شائع ہوئی کہ وہ صرف پانچ مرلے کے ایک خاندانی گھر ہی کے مالک ہیں۔ یہ پولیس افسر کئی ضلعوں میں ڈی پی او رہ چکے ہیں۔ اس خبر پر ایک معروف جاٹ سیاستدان کی رائے یوں تھی:’’اس بیچارے میں کمزور ذات برادری کے باعث جرات کا فقدان ہے۔ رشوت لینے اور اسے ہضم کرنے کیلئے بڑا دل گردہ چاہئے‘‘۔ وہ پولیس افسر ایک غیر زراعت پیشہ برادری سے تعلق رکھتا تھا۔
٭…٭…٭
کرپشن کے بارے رنگ رنگ کے جذبات
Sep 09, 2024