جنگ ِ ستمبر بیرونی پریس کی نظر میں

Sep 09, 2024

سکندر خان بلوچ

جنگ کے پہلے ہی دن بھارت نے خبر نشر کی کہ بھارتی فوج لاہور داخل ہو گئی ہے۔ آکاشوانی کے علاوہ یہ خبر بی بی سی سے بھی نشر ہوئی۔اس خبر نے پاکستان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ اب دنیا بھر کے صحافیوں نے دونوں ممالک پر یلغار کر دی۔ ہندوستان نے بہرحال اپنی پروپیگنڈا مہم جاری رکھی اور اپنا وطیرہ یہ رکھا کہ تمام صحافیوں کو روزانہ پریس بریفنگ دلی میں ہی دی جاتی رہی جس میں ہندوستانی فوج کی بہادری کے من گھڑت قصے بتائے جاتے۔ مختلف مقامات پر پاکستان کی شکست کے قصے بھی دلچسپ اندازمیں سرکاری طور پر پریس کو ریلیز کیے جاتے جو دوسرے دن تمام بھارتی اخبارات مرچ مصالحہ لگا کر چھاپتے۔ یہی سلسلہ آکاشوانی نے بھی جاری رکھا ۔
بی بی سی بہرحال پہلی خبر کے ساتھ محتاط ہو گیا۔ بھارت نے ہوشیاری یہ کی کہ کسی بھی غیر ملکی صحافی کو محاذ پر جانے کی اجازت نہ دی ورنہ جھوٹ پکڑا جاتا۔ پاکستان نے پہلے چند دن تو سرکاری پریس ریلیز دی بعد میں سارا محاز صحافیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا اور وہ خود جا کر حالات کا تجزیہ کرتے رہتے۔ ان صحافیوں نے جب تجزیے اور رپورٹس بھیجنی شروع کیں دنیا کی رائے تبدیل ہونی شروع ہوئی۔ چند ایک اہم قسم کی رپورٹس حسب ذیل ہیں:
1 ۔ رائے میلونیROY MELONY   امریکن براڈ کاسٹنگ سروس کا پرانا تجربہ کار اور بڑا معتبر صحافی مانا جاتا تھا۔ اس کا تجزیہ 15 ستمبر 1965 کو مندرجہ ذیل الفاظ میں نشر کیا گیا جسے بڑے بڑے اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔
’’میں پچھلے بیس سالوں سے صحافت سے منسلک ہوں۔میں یہ بات واضح طور پر ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میں نے آج تک اتنے پر اعتماد اور فتح کے جذبے سے سرشار سولجرز نہیں دیکھے جو اب پاکستان کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان مکمل فتح کا اعلان کر رہا ہے لیکن مجھے فتح کا کہیں نشان تک نظر نہیں آیا۔میں نے صرف یہ دیکھا ہے کہ فوجی جوان، فوجی ٹینک اور فوجی ساز و سامان سب محاذ کی طرف رواں دواں ہیں اور اگر ہندوستانی ایئر فورس اتنی ہی فاتح اور طاقتور ہے تو بڑھتے ہوئے فوجی قافلوں کو کیوں نہیں روکتی۔ اس کا واحد جواب یہ ہے کہ پاکستانی جہازوں نے بھارتی ایئر فورس کا بھرکس نکال دیا ہے اور وہ پاکستان کے لیے خطرہ بننے کی پوزیشن میں ہی نہیں  ہے۔پاکستانی مسلمان پیدائشی جنگجو ہیں۔ ان کی ہمت و حوصلے چٹان کی مانند ہیں۔اس قسم کی جنگ جواب پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری ہے دونوں طرف  پروپیگنڈا کے دعوے حیران کن ہیں لیکن آج اگر مجھے دونوں میں سے کسی ایک کی فتح پر شرط لگانی پڑے تو یقینا میں اپنی شرط کا پیسہ پاکستان کا لگاؤں گا۔‘‘
2۔یہ رپورٹ بھی ایک امریکن صحافی کی ہے:
 ’’مجھے بہت سے پاکستانیوں نے بتایا کہ اس سے پہلے ہم لوگ برطانیہ کے زیر سایہ آپ لوگوں کے لیے لڑتے رہے ہیں لیکن اب یہ ہماری اپنی جنگ ہے اور ہم اس سے آخری دم تک لڑیں گے۔‘‘
Joe McGowen Jr. Washington Post 10 Sep. 65
3۔ 17 ستمبر 1965 کے ہفت روزہ ٹائم میگزین نے اپنی جنگی رپورٹ ان الفاظ میں بیان کی:
 ’’ جہاں تک ہوائی جنگ کا تعلق ہے وہی پرانی کہانی دہرائی جارہی ہے بھارت کی عددی برتری اور پاکستان اعلی تربیت یافتہ فوج کے مقابلے میں بھارتی فوج کا کوئی مقابلہ نہیں۔‘‘
4۔روزنامہ ڈیلی میل نے اپنی 24 ستمبر کی رپورٹ میں لکھا:
’’ اب جبکہ میدان جنگ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اور عام نامہ نگاروں کے لیے کھلا ہے تو یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان نے بھارتی ٹینکوں کی خوب دھنائی کی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان نے اپنے نقصانات چھپانے کی بہت کوشش کی ہے بھارت کے دعوے بھی غلط ثابت ہوئے ہیں کہ اس نے پاکستانی فوج اور پاکستانی ائیر فورس کو عبرتناک شکست دی ہے۔‘‘
5۔ : ہفت روز ٹائم میگزین نے اپنے 22 ستمبر 1965 کے شمارے میں ایک بہت معتبر نامہ نگار LOUIS KARRARکی رپورٹ ان الفاظ میں شائع کی:
’’ مجھے پاک بھارت جنگ یاد رہے یا نہ رہے لیکن میں پاکستان آرمی کے رابطہ آفیسر کی وہ پرعزم مسکراہٹ کبھی نہیں بھول سکتا جو اس کے جوش و جذبہ کی عکاس تھی۔اس مسکراہٹ نے مجھ پر واضح کر دیا کہ پاکستان فوج کے نوجوان آفیسرز کتنے دلیر اور جرات مند ہیں۔آگ کے ساتھ کھیلتے ہوئے یہ لوگ جو ان سے لے کر محاذ جنگ کے جنرل تک اس طرح تھے جیسے بچے گلی میں ماربل کھیل  رہے ہوں۔ میں نے جنگی محاذ پر ایک جنرل سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ عددی طور پر کم ہونے کے باوجود آپ بھارتیوں پر حاوی ہیں۔ جنرل میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور جواب دیا: اگر ہمت، بہادری اور حب الوطنی قابل خرید اشیاء ہوتیں تو یقینا بھارتی یہ سب چیزیں امریکہ سے بھاری فوجی  امداد کے ساتھ ہی خرید لاتے ۔‘‘
یہاں یہ یاد رہے کہ 1962 میں جب چین نے بھارت کی پٹائی کی تو بھارت نے مغربی دنیا سے ہتھیاروں کی اپیل کی۔اس اپیل کے جواب میں بھارت کو اتنے ہتھیار ملے کے بھارت کے اسلحہ خانوں میں رکھنے کی جگہ نہ رہی۔یہ ان ہتھیاروں ہی کا نشہ تھا کہ بھارت رات کے اندھیرے میں پاکستان پر چڑھ دوڑا کہ ایک تو چین کی شکست کا داغ دھل جائے دوسرا ان نئے ہتھیاروں کے استعمال کا عملی تجربہ ہو جائے۔
6۔2ستمبر کو کوالا لمپور کے مشہور اخبار ’’UTUSAN MELAYU‘‘ نے لکھا:
’’ اس کے باوجود بھارت کی 40 کروڑ آبادی کے مقابلے میں پاکستان کی محض 10 کروڑ لیکن پھر بھی  پاکستان نے بھارتی حملے کا جراتمندی سے مقابلہ کیا ہے اور شاندار فتوحات حاصل کی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے تھے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ تھی اور مغربی پاکستان کی ساڑھے چار کروڑ۔ 
7۔ 27ستمبر1965کی اشاعت میں مشہور زمانہ ہفت روزہ '' نیوز ویک'' نے اپنے معتبر نیوز رپورٹر  FRANK MELVILLEکے توسط سے لکھا:
’’ شدید بمباری کے باوجود پاکستانی جوانوں کا حوصلہ بہت بلند ہے۔ سخت فائرنگ کے دوران پاکستانی جوانوں کی مضبوط قوت ارادی اور سخت جسمانی برداشت نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔‘‘
…………………… (جاری) 

8۔      '' "INDONESIAN HERALDنے اپنی 15 ستمبر کی اشاعت میں لکھا:
       ’’ اپنی حالیہ تقریر میں صدر سوئیکارنو نے بتایا  ہے کہ کم ہتھیاروں کے باوجود پاکستان نے ہندوستانی حملے کو ناکام بنادیا ہے کیونکہ پاکستان کی جنگ کا مقصد اپنے وطن اور اپنی قوم کا دفاع ہے جیسا کہ غیر ملکی پریس ایجنسیوں نے پاکستان سے رپورٹ بھیجی ہے۔ پاکستان نے سیالکوٹ کے محاذ پر بہت سے بھارتی ٹینکوں کو تباہ کردیا ہے۔ لندن کے مشہور انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز نے ایک مضمون میں ملٹری بیلنس 1964-65 میں لکھا کہ بھارت کے اعلی ہتھیاروں کا مقابلہ پاکستان کی حب الوطنی سے تھا جس نے کمتر ہتھیاروں کے ساتھ اپنے دشمنوں کو مار کر پیچھے دھکیل دیا ہے۔‘‘
 9۔      ARTHUR COOKاپنی مشہور کتاب’’ UNUSED STORY  ‘‘صفحہ نمبر 29 پر رقمطراز ہے:
         ’’بھارتیوں نے اپنے مغربی جرنلسٹ استادوں سے انفارمیشن بزنس کے متعلق بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ مجھے اس وقت تو اس گر کا پتہ نہ چل سکا لیکن تین ہفتوں کی اس پاک بھارت جنگ میں بھارت کی طرف سے جنگ کی  کوریج کرنے والے جرنلسٹوں میں سے کسی ایک کو بھی جنگی محاذ کے نزدیک تک نہ جانے دیا گیا۔ کم سے کم محاذ سے سو میل دور رکھا گیا۔بھارتیوں نے  فتح کے تمام دعوے نئی دلی میں بیٹھ کر اخبار نویسوں کو خود بتائے  جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز تھے۔جب آہستہ آہستہ حقیقت آشکار ہوئی تو یہ سب سفید جھوٹ ثابت ہوئے۔ بھارتیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر وہ میدان میں نہ بھی جیت سکے تو پروپیگنڈا کے ذریعے ہر صورت جیتیں گے۔‘‘
 اس سلسلے میں  بھارت کے اپنے اخبارات پر بھی نظر ڈالیں۔زیادہ تر اخبارات تو وہی کچھ لکھتے رہے جو کچھ فوج فرضی بہادری اور فرضی فتح کی پریس  ریلیز دیتی رہی لیکن بعض اخبارات نے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی۔ کلکتہ ڈیلی میل نے 11 ستمبر کو اپنے  ایڈ یٹوریل میں لکھا:
          ’’پاکستان فوج نے واہگہ سیکٹر  میں نہ صرف بھارتی حملہ روک دیا بلکہ بعض مقامات پر بھارتی حصار کو توڑتے ہوئے بھارتی علاقہ میں داخل ہو گئی  ہے اور کئی ایک بھارتی پوسٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔پاکستان اور بھارت میں کام کرنے والے مبصرین  اس بات پر متفق ہیں کہ بھارتی حملہ پاکستان کے دفاع کو توڑنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔‘‘  
16 ستمبر کو ''ٹائمز آف انڈیا'' نے لکھا:
         ’’پاکستان ہر محاذ پر جوش و جذبے سے لڑ رہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بھارتی فوج کسی بھی محاذ پر پاکستانی علاقے میں داخل نہیں ہو سکی۔‘‘
 اخبار دو سینئر بھارتی جرنیلوں کے  درمیان مکالمے کا حوالہ دے کر لکھتا ہے:
         ’’ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستانی فوج کوئی گلی محلے کا ہجوم نہیں بلکہ ایک خالص پروفیشنل فوج ہے۔‘‘
         اسی طرح اور بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے حقیقت جانے کی کوشش کی اور صحیح رپورٹنگ کی لیکن یہ بھی ماننا پڑتا ہے جس کا آرتھر کک نے لکھا کہ بھارتیوں نے پروپیگنڈا کے ذریعے جنگ جیتنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔اس لیے انہوں نے اخبار نویسوں کو ہر ممکن طریقے سے خریدا اور مرضی کی رپورٹنگ کرائی جنہوں نے بغیر دیکھے بھارتی فتوحات کے بڑے بڑے دعوے کیے۔یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ بھارت نے پروپیگنڈا کے ذریعے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی  اور خصوصا مغربی ممالک سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کیے یہ پروپیگنڈا ہی کا اثر تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے لیے اسلحہ اور خصوصا  ایمونیشن  پر سخت پابندی لگا دی ۔بھارت کے پاس تو ضرورت سے زیادہ ایمونیشن موجود تھا ۔بالواسہ ذرائع سے بھی بھارت کو لگاتار ضرورت کا سامان ملتا رہا لیکن پاکستان کے پاس چند دنوں سے زیادہ کا  ایمونیشن نہ تھا اور بعض تو پوں کا تو محض ایک دن کا  ایمونیشن رہ گیا۔ بغیر اسلحہ کے فو جیں نہیں لڑ سکتیں لہٰذا پاکستان کو مجبورا جنگ بندی کا فیصلہ قبول کرنا پڑا۔لیکن یہ قوم پر واضح ہو گیا کہ مانگے ہوئے اسلحے پر جنگ نہیں لڑی جا سکتی ۔یہ بھی واضح ہو گیا کہ جنگ کی صورت میں ہمیں بھارت کا مقابلہ صرف میدان جنگ میں ہی نہیں بلکہ پروپیگنڈا کے محاز پر بھی کرنا پڑے گا جس کے لیے خصوصی تیاری کی ضرورت ہے۔ 

مزیدخبریں