پیر‘ 4 ربیع الاول 1446ھ ‘ 9 ستمبر 2024ء

ہمار ا جلسہ مہنگائی اور لاقانونیت کے خلاف ہے، بیرسٹر گوہر
پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے پوری قیادت نے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے اسے بانی کی رہائی کا نام دیا اور خود بانی نے جیل سے بیان دیا تھا،کہ باہر نکلو‘ غلامی کی زنجیریں توڑ دو‘ یہ صاف پیغام تھا۔ 
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے
 جبکہ اسلام آباد انتظامیہ نے دودھ میں مینگنیاں ڈال کر بالآخر جلسے کے لیے سنگ جانی میں جگہ دے دی ہے تو گزشتہ روز اچانک پی ٹی آئی کی قیادت سوشل میڈیا کے برعکس الیکٹرانک میڈیا کے سامنے مؤدبانہ انداز میں یہ کہتی نظر آرہی ہے کہ یہ پرامن جلسہ مہنگائی اور لاقانونیت کے خلاف ہوگا۔ اس میں کہیں بھی کسی قیدی کا ذکر خیر تک نہیں۔ بہرحال خدا کرے یہ جلسہ پرامن رہے اور قائدین کے مطابق دھرنا یا لانگ مارچ نہیں ہوگا ورنہ حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ وقت اس کے لیے موزوں نہیں، اب خیبر پختونخوا سے علی امین گنڈاپور کی گزشتہ روز کی ویڈیو جس میں وہ ٹی شرٹ پہنے دوڑتے ہوئے کارکنوں کے ساتھ   میراتھن کرتے نظر آئے ہیں اگروہ اسی طرح اسلا م آباد چل پڑے تو کیا ہوگا۔ اس سے کہیں خطرناک یہ ہو گا کہ اگر دوسرے صوبوں اور علاقوں سے آنے والے کارکن بھی اس میراتھن مقابلے میں آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگے تو کیا ہوگا۔ روکنے والے بھی پوری تیاری کے ساتھ ہوں گے۔ کہیں ایک خوبصورت آنکھ مچولی کا پہلے والا کھیل دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے۔ امید ہے یہ نوبت نہیں آئے گی۔ سب اپنے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ ہاں عین وقت پر اگر کسی نے یوٹرن لے لیا تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بازی حالات کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کیا ہوتا ہے۔ کس کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے رکاوٹیں لگ چکی ہیں، بقول گوہر، ان کے کئی کارکن گرفتار ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کا سارا زور خیبر پختونخوا کی طرف سے منہ زور ریلے کی طرح آسکتا ہے۔ 
٭…٭…٭
حکومت نہ مانی تو بجلی بلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر سکتے ہیں، حافظ نعیم
 اگر جماعت اسلامی کے امیر باقی سب کام چھوڑ کر صرف بجلی بلوں کے مسئلے کو لے کر چلتے رہیں تو یقین کریں انھیں جماعت کے لیے کارکن بنانے کی مہم نہیں چلانی پڑے گی۔ لوگ ازخود جماعت کے ساتھ ہوں گے۔ گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے امیر نے کئی لاکھ ممبر بنانے کا جو اعلان کیا ہے، اس کو کامیابی سے ہمکنار صرف بجلی بلز ہی کراسکتے ہیں۔ اس وقت ویسے بھی جب سے جماعت کی قیادت کراچی والوں کے ہاتھ آئی ہے، جماعت والوں کی روایتی تیزی پھر سامنے آرہی ہے۔ کیا کیا جائے، کراچی کی سیاست میں تیزی ہی کامیاب ہوتی ہے۔ یہاں آرام طلب جماعت ہو یا قیادت کو پسند نہیں کیا جاتا۔ بلدیاتی الیکشن سے لے کر کراچی میں بارش کی تباہی تک اور مہنگائی سے لے کر بجلی بلوں میں رعایت دینے کے مسئلہ تک دو جگہ واقعی اب جماعت اسلامی کی جارحانہ سیاست نے ایک بار پھر ماضی کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس بات سے ہٹ کر کہ جماعت اسلامی لاکھوں ممبر بنائے گی، کہاں سے آئیں گے، اتنے لوگ۔ مگر اس وقت جماعت نے مہنگائی اور بجلی بلوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ عوام کے دل کی آواز ہے مگر یہ سابق وزیراعظم کی طرح روایتی نمائشی اعلانات نہیں ہونے چاہئیں جو رات کو جلسے میں نجانے کس کا بجلی بل جلا ڈالتے تھے اور صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنا بجلی بل جمع کرواتے تھے کہ کہیں بجلی بند نہ ہو جائے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں مگر حکومت کو ان سے زیادہ اپنی چہیتی آئی پی پیز کی فکر ہے۔ ان کو راضی رکھنے کے لیے حکومت ان کے ہر جائز و ناجائز مطالبے پر آنکھیں بند کرکے عمل پیرا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ملک کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والوں کو دھتکارا جا رہا ہے اور ملک و قوم کا خون نچوڑنے والوں کو سراہا جا رہا ہے۔ اب جماعت والے اس مسئلے پر ڈٹ جائیں تو عوامی حمایت حاصل کر سکتی ہیں۔ 
٭…٭…٭
امریکی یہودیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والا پاکستانی نوجوان کینیڈا میں گرفتار
خدا جانے ہم پاکستانیوں کو کب عقل آئے گی، ہم کب انتہا پسندوں کے چنگل سے بچ نکلیں گے۔ پہلے ہی ہم دوسروں کی اس جنگ میں کافی نقصان اٹھا چکے ہیں اور ابھی تک اٹھا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر عرصہ دراز تک سارے دشمنوں نے دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دلوائے رکھا۔ خدا خدا کرکے حالات بہتر ہوئے مگر اب بھی کہیں، کسی ملک میں کوئی انتہاپسند سرگرم ہوں تو لامحالہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ القاعدہ ہو یا داعش یا طالبان، ان سے پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم پہلے ہی ان کے ہاتھوں بہت زخم کھا چکے ہیں، اب بھی کھا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مو ثر جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے پاکستانیوں کوبھی چاہیے کہ وہ ملک میں ہوں یا بیرون ملک، ایسی تنظیموں سے دور رہیں۔ جن کی وجہ سے ان کی اپنی اور ان کے ملک کی راہ میں کانٹے بچھ سکتے ہیں۔ امریکا میں یہودیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں کینیڈا سے ایک 20 سالہ پاکستانی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ شاہ زیب خان جدون پر الزام ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیل کے حملے کو ایک سال پورا ہونے پر 7 اکتوبر کو داعش کی مدد سے بیروکلین میں ایک یہودی مرکز میں فائرنگ کا منصوبہ بنایا تھا۔ اب چاہے یہ کوئی فلمی جاسوسی کہانی ہی کیوں نہ ہو، بیرون ملک آباد لاکھوں پاکستانیوں کے لیے مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی مغربی ممالک میں مسلم تارکین وطن کے خلاف نفرت اور تعصب کی لہر نے قیامت اٹھا رکھی ہے۔ انھیں نکالنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ نظر رکھیں کہ ان کے نوجوان بچے کن تنظیموں سے رابطے میں ہیں اور کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ان کا میل ملاپ ہے تاکہ مستقبل میں کسی پریشانی سے بچ سکیں۔ 
٭…٭…٭
سندھ کو سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز دیے گئے ہیں، ترجمان
 یہ آج کی بات نہیں، عرصہ دراز سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ کبھی پانی کی تقسیم کے حوالے سے کبھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اور کبھی صوبے کو کم فنڈ دینے کے مسئلہ پر سندھ کی حکومت نے ہمیشہ رولا ہی ڈالا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہاں پیپلزپارٹی کی نہیں، جئے سندھ جیسے نظریات رکھنے والوں کی حکومت ہے۔ جن کا کام ہی قوم پرست جماعتوں کی طرح مرکز گریز رویہ برقرار رکھنا ہے۔ بلاول ہوں یا مراد علی شاہ یا سید خورشید شاہ، ان کا لب و لہجہ وقت کی مناسبت سے موسموں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے گویا جی ایم شاہ تقریر کر رہے ہیں۔ اب ایک بار پھر پہلے پانی کے مسئلے پر خورشید شاہ نے آنسو بھر بھر کر تقریر کرتے ہوئے ساون بھادوں کا سماں باندھا اور اب ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے پوری سندھ حکومت کہہ رہی ہے کہ سندھ کو اس کے حصے کے ترقیاتی فنڈز نہیں مل رہے۔ پہلے محترمہ آصفہ بھٹو زرداری نے اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ سندھ کو بجلی کی سپلائی بھی کم ہے، انھوں نے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ ان کے اپنے حلقے میں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اب خود تو وہ کراچی والے بنگلے میں یا بیرون ملک جا کر رہ سکتی ہیں مگر واقعی عوام کا تو برا حال ہوگیا جنھوں نے شاید کبھی یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی موروثی حکومت 15 سال سے زیادہ ہو چکے، کام کر رہی ہے اور اسے کوئی چیلنج بھی نہیں کرپاتا۔ آخر اس حکومت نے اپنے صوبے میں پانی اور بجلی کی فراہمی بہتر بنانے پر کام کیوں نہیں کیا۔ ورنہ خدا جھوٹ نہ بلوائے کالاباغ ڈیم کے بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ ہی بنا ہے جس کی وجہ پورے ملک کے کروڑوں عوام بجلی اور پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اگر یہ بنا ہوتا تو آج نہ پانی کی کمی ہوتی نہ بجلی کی، کسان، ہاری، مزدور، ملازم، سب خوشحال ہوتے۔ قومی خزانہ بھرا ہوتا اور چاروں صوبوں کو وافر مقدار میں فنڈز ملتے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...