آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی 

وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ حکومت آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کر رہی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی ہوئے قیمتوں کو کم کیا جا سکے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ملک میں سماجی بد امنی پیدا کی ہے اور 350 ارب ڈالر کی معیشت میں صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، اس کی انتہائی زیادہ اور ناقابل برداشت قیمتوں اور اس کے ساتھ اوور بلنگ نے گھریلو، صنعتی اور کاروباری سمیت تمام صارفین کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ مڈل اور لوئر کلاس صارفین کا عرصہ حیات بری طرح سے تنگ ہوا ہے۔ بجلی کے انتہائی زیادہ بلوں کی وجہ سے کئی لوگ بچوں سمیت خود کشیاں کر چکے ہیں۔ کئی لوگ گھریلو اشیاء بیچ کر بل جمع کروانے پر مجبور ہیں۔ بڑی تعداد میں کاروبار ڈوب رہے ہیں۔ وزیر توانائی نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ملک میں بجلی کی قیمتوں کا موجودہ نظام ناقابل برداشت ہے۔ اگر یہ نظام ناقابل برداشت ہے تو پھر اس کو تبدیل یا ریفائن کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ بجلی کے صارفین کے لیے آئی پی پیز پیر تسمہ پا بن چکی ہیں۔ وزیر توانائی کی طرف سے کبھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ بڑی گارنٹیاں دی گئی ہیں، آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی۔ اب نظر ثانی کی بات کی گئی ہے۔ ان کی کس بات پر اعتبار کیا جائے؟ یہ تو طے ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے خصوصی طور پر کپیسٹی پیمنٹ مہنگی بجلی کی بڑی وجہ ہے۔ نظر ثانی کب ہوگی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس دوران حکومت کم از کم بجلی مزید مہنگی تو نہ کرے۔ ایک طرف پنجاب حکومت کی طرف سے بجلی بلوں میں عارضی ریلیف دیا گیا ہے تو دوسری طرف بجلی مہنگی کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔نیپرا مہاراج نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کل بھی پونے دو روپے یونٹ بجلی مزید مہنگی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بیانات کا لولی پاپ دینے کی بجائے حکومت عوام کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن