اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ سے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی یہ ملاقات پاکستان ہاؤس لندن میں ہوئی۔ ڈپٹی سپیکر دارالعوام نصرت غنی سمیت برطانوی اراکین پارلیمنٹ عشائیے میں شریک ہوئے۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق عشائیہ پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل کی جانب سے دیا گیا۔ وزیر خارجہ نے پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ اسحاق ڈار نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات تاریخ، ثقافت اور مشترکہ مقاصد پر مبنی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی نژاد اراکین پارلیمنٹ کی تعداد 15 ہونا برطانوی جمہوریت کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اسحاق ڈار نے پاکستان کی اقتصادی بحالی کیلئے حکومتی روڈ میپ پر بریفنگ دی اور کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان نے بھاری جانی و مالی قربانیاں دیں۔ ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت پاکستان کی ترقی کے سفر میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرے گی۔ برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر اور فلسطینی عوام پر مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ علاوہ ازیں اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ طالبان کے افغانستان پر غلبے کے بعد فیض حمید کا دورہ کابل پاکستان کو بہت مہنگا پڑا۔ لندن میں نجی ٹی وی کو انٹرویو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ پاکستان کے نظام کو طویل عرصے سے جانتا ہوں، فیض حمید حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتے تھے، ممکن نہیں کہ صدر اور وزیراعظم کی بغیراجازت دہشتگردی میں ملوث 100 سے زائد مجرموں کو رہا کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف آپریشن کے دوران مفرور کالعدم ٹی ٹی پی کے 35 سے 40 ہزارلوگوں کوبھی واپس آنے کی اجازت دی۔ آپریشن ضرب عضب، ردالفساد کے سبب 2017ء تک دہشت گردحملے تقریباً ختم ہوچکے تھے، دہشت گردوں کی رہائی اور واپس ملک آنے دینے کے سبب ملک میں دوبارہ دہشت گردی نظرآرہی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ فیض حمید ہوں یا ملوث دیگر افراد ان کے خلاف جو بھی ہوگا قانون کے مطابق ہوگا، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ہوں یابانی پی ٹی آئی ملوث ہوئے تو بھی یقین ہے ان کیخلاف بھی کارروائی ہوگی۔ پی ٹی آئی کے بانی کو سزا ہو چکی اور مقدمہ بھی چل رہا ہے، ایسے حالات میں انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب لڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، سیلی بریٹی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے 'لائسنس ٹو کل'دے دیا جائے۔ فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے نہ وہ سیاست میں آتے ہیں، 9 مئی واقعہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ملوث افراد کو پہلے اس میں کلئیرنس لینا ہو گی۔ تین ہزار سی سی کی گاڑیوں پر پاپندی لگانے پر جنرل مشرف سے بھی اختلاف ہوا۔