سنجیدہ حلقوں کے مطابق کسے علم نہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے روز اول ہی سے فلسطین کے پْرزور حامیوں سے ایک رہا ہے اور فلسطین کے لیے اس کی یہ حمایت کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ رہی ہے۔فلسطین سے متعلق پاکستان کا یہ دوٹوک نقطہِ نظر اس کی بحیثیت اسلامی جمہوری شناخت اور امت مسلمہ سے وسیع تر وابستگی کے سبب ہے۔یاد رہے کہ نظریہ پاکستان اور امت واحدہ کا رْکن ہونے کی حیثیت سے اسرائیل کے وجود کا تسلیم کیا جانا پاکستان کی اس واضح شناخت سے متصادم سمجھا جاتا ہے اورفلسطین کے لیے پاکستان کی غیرمتزلزل حمایت سیاسی سے زیادہ اسلامی ہے اور یہ سوچ پاکستانی سماج اور عوام میں عقیدے کی طرح راسخ ہو چکی ہے۔ مبصرین کے بقول اس کا مشاہدہ قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک ہر حکومت کی پالیسیوں میں کیا جاسکتا ہے اوریہ اسی کا اثر ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کارروائیوں کی اعلانیہ مذمت، سفارتی تعلقات میں عدم دلچسپی اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا آیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیل کیخلاف پاکستان کا مؤقف اور طرزعمل اسرائیل کے قیام کے روز ہی سے واضح ہے۔ پاکستان نے خود کو ہمیشہ اسرائیل کے مخالف ممالک سے ہم آہنگ کیا ہے، جبکہ یہ اتحاد اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دیگر اسلامی اتحادوں میں پاکستان کی رکنیت کے ذریعے مزید مضبوط ہوا۔ یہ تمام وہ فورمز ہیں جہاں مسئلہ فلسطین ہمیشہ ایک مرکزی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔یاد رہے کہ خان نے اپنی وزرات اعظمیٰ کے دوران میں مسئلہ فلسطین کے لیے پاکستان کی روایتی حمایت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اورفلسطین و فلسطینیوں کے لیے صدا بلند کرنے کیساتھ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل تک مسترد کر دیا۔ خان کا یہ مؤقف نہ صرف عوامی خواہشات کا مظہر بلکہ پاکستان کی اس مسئلے پر طویل خارجہ پالیسی کے عین مطابق تھا۔مبصرین کے مطابق ان واضح عوامل کے ہوتے ہوئے خان کے دور اقتدار میں ایک پس پردہ پالیسی اختیار کی گئی جو مسئلہ فلسطین پر ان کے عوامی مؤقف اور خاموش سفارتکاری کے درمیان نام نہاد توازن برقرار رکھنے کی کوشش تھی۔ خان نے ایک طرف پاکستان کے دیرینہ دوستوں چین اور سعودی عرب کیساتھ تعلقات کو مضبوط تر کرنے کی کوشش کی،تو دوسری طرف پاکستان کی عمومی خارجہ پالیسی کے برخلاف پاکستان مخالف ممالک سے بات چیت کی راہ نکالی۔ خان کا یہ نقطہِ نظر اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اسرائیل سے متعلق پاکستان کے سخت گیر مؤقف پر نظرثانی کے لیے لچک دکھا سکتے ہیں۔واضح رہے کہ خان کے گولڈ اسمتھ خاندان، بالخصوص سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ سے انتہائی قریبی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ غیرمعمولی تعلقات اسرائیل سے متعلق ان کے مؤقف میں ممکنہ تبدیلی کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ گولڈ اسمتھ خاندان برطانوی اشرافیہ کا اہم رکن ہے۔ جمائما کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ برطانوی سیاست میں شامل رہے ہیں۔ جس وقت وہ لندن کے میئر کا انتخاب لڑ رہے تھے، تب خان کی ہمدردیاں اور حمایت ایک مسلم امیدوار صادق خان کے بجائے یہودی النسل زیک گولڈ اسمتھ کے ساتھ تھیں اور موصوف کا یہ طرز عمل گولڈاسمتھ خاندان اور اس کے وسیع نیٹ ورک کے لیے غیرمشروط وفاداری کو ظاہر کرتا ہے۔
اس بات کے شواہد پائے جاتے ہیں کہ خان نے گولڈ اسمتھ خاندان کے توسط سے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھیجے، جن میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر غور کرنے اور پاکستان میں اسرائیل مخالف بیانیے کو قابل قبول بنانے کی خواہش شامل تھی۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یہ اقدامات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ اسرائیل سے متعلق خان کے رویے میں نرمی پائی جاتی ہے،اوریہ رویہ اسرائیل سے متعلق پاکستان کے بنیادی مؤقف سے متصادم ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کی استواری کی اس خواہش کو مشرق وسطیٰ میں بدلتی تزویراتی صورتحال کے تناظر میں بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
یہ امر خصوصی توجہ کا حا مل ہے کہ خان کی مغربی تعلیم اور مختلف ثقافتی اور سیاسی دائروں کے درمیان رابطہ کاری کی صلاحیت انہیں اسرائیل اور مسلم ممالک کے درمیان ممکنہ ثالث کی منفرد پوزیشن عطا کرتی ہے۔ خان پر نظر انتخاب اس وقت گئی جب ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں کی گئیں، یہ وہ دور تھا جب مذکورہ دونوں ممالک معاہدہ ابراہم (Abraham Accords) سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے اسرائیل سے بہتر تعلقات کے لیے کوشاں تھے۔مبصرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اگر خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی مغرب اور اسلام کے درمیان قربت پیدا کرنے کی صلاحیت پاک اسرائیل تعلقات استوار کرنے میں بھی معاون ہوگی۔ ان کے گولڈ اسمتھ فیملی سے ذاتی تعلقات اور اسٹریٹجک نقطہِ نظر کو اسرائیل اور ان دیگر مسلم ممالک کے مابین ثالثی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو وسیع تر علاقائی تبدیلی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ خان کی جانب سے اسرائیل سے متعلق پاکستان کے واضح مؤقف کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ پاکستان کے سیاسی افق پر مذہبی جماعتیں متاثر کْن اثر رکھتی ہیں۔یہ وہ جماعتیں ہیں جو اسرائیل مخالف جذبات رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ رائے عامہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں، لہٰذا خان کو ایسے کسی بھی اقدام کی صورت میں عوام اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان ممکنہ چیلنجز کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قبل ازیں خان نے تعلیمی اصلاحات اور خواتین کے حقوق جیسے اہم امور میں طاقتور مذہبی تنظیموں کو کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔ایسے میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ خان وسیع ترمفادات کی خاطر اسرائیل سے متعلق مختلف نقطہ ِنظر کو اپنانے کے لیے آمادہ ہو سکتے ہیں۔مشرق وسطیٰ تبدیلی کے ایک اہم دور سے گزر رہا ہے۔اس کی نشاندہی بدلتے اتحاد، اقتصادی مفادات اور انتہا پسندی کے مشترکہ خطرے سے ہو رہی ہے۔ اس غیرروایتی سوچ کیساتھ سفارتکاری اور غیرمتوقع اتحادوں کے اس پس منظر کے درمیان پاک اسرائیل تعلقات کیاستواری میں خان کا ممکنہ کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پھر پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی خطے میں رونما ہوتی ان تبدیلیوں کے تابع ہوگی جن کا تصور اس سے قبل محال تھا، یوں ممکنہ طور پر اسرائیل اور وسیع تر اسلامی دنیا کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔مغربی اور اسرائیلی ماہرین کے مطابق پاکستانی سیاست میں خان کی واپسی کے لیے اسرائیل اور اس کے اتحادی جو کچھ بھی کرسکتے ہیں انہیں کرنا چاہیے، تاکہ خان اعتدال پسندی کی آواز بن سکیں۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق مشہور اسرائیلی اخبار’’دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘میں خاتون یہودی صحافی اینور بشیروا کے بانی پی ٹی آئی خان سے ایسے متعلق چشم کْشا انکشافات سامنے آئے ہیں جن پر کھل کر تبصرہ نہ کرنا ہی سب سے بہترین تبصرہ ہے
[4:29 PM, 9/8/2024] Gn But Sb:
پاک اسرائیل تعلقات میں ممکنہ بہتری۔براستہ عمران خان؟
Sep 09, 2024