بلوچستان : یہ ایس ایچ او کا مسئلہ نہیں!!                                      

سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی لگتا ایسے ہے کہ پاکستان میں آئندہ  الیکشن وقت سے پہلے ہونگے ؟ وجہ یہ ہے کہ یہ الیکشن جس انداز میں ہو ئے ہیں اور جس انداز سے فنکشن کر رہے ہیں لگتا نہیں ہے کہ یہ کسی مسئلہ کا صیح اور مو زوں حل ہے ،اور یہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت عوام کی کسی آرز وپر پورا اترسکے گی۔یہ ایک مسئلہ ہے جو کہ جاری رہے گا۔یہ فارم 47کی چنی ہو ئی اسمبلی ہے اور یہ لوگ تو کسی بھی مسئلہ کو مسئلہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ایک جانب تو بلوچستان میں آگ لگی ہو ئی اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے تو دوسری جانب ہمارے محترم وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔اگر یہ مسئلہ ایک ایس ایچ او کی مار ہو تا تو بھٹو سے بڑا تھانیدار کو ئی نہیں تھا ان کے دور میں یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہو گیا ؟ اسی طرح پرویز مشرف سے بڑا تھانیدار کو ئی نہیں تھا اس سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔اس سے کیا ثابت ہو تا ہے ؟ ایک تو یہ بات ثابت ہو تی ہے یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جس کو حل کرنے کے لیے نہایت ہی سنجیدہ انداز میں سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ،بڑھکے مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف خلق خدا کے چنے ہو ئے نمائندے مل کر کر سکیں گے اور اس کے لیے بھی صاف شفاف الیکشن بہت ہی ضروری ہیں۔حقیقی نمائندوں کو مسائل کی صیح سمجھ ہو گی اور ان کو ہی عوام کا ڈر بھی ہو گا درد دل بھی ہو گا ،یہ سمجھ بھی ہو گی کہ پاکستان مختلف قوموں کا مجموعہ ہے ،اور اس ملک کی ہر قوم کے ہر جزو کے اپنے مسائل ہیں اور اپنے اپنے اہداف ہیں اور ان کے حل بھی صرف اور صرف مقامی سطح پر ہی کیا جاسکے گا۔ہم نے بنگالیوں کو اپنے تن سے جدا کرکے کوئی کمال نہیں کیا ،یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی بنیاد رکھنے والی قوم ہی ہمارے سے علیحدہ ہو گئی۔ لیکن دونوں میں فرق ظاہر ہے کہ ہماری آبادی 12کروڑ سے 25کروڑ ہو گئی ہے اور مشرقی پاکستان یعنی کہ بنگلہ دیش کی آبادی 16کروڑ سے زیادہ نہیں بڑھی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ آج ہم سے فی کس آمدنی میں کہیں زیادہ امیر ہیں اور زیادہ خوشحال ہیں اور ہم غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ہمارے وسائل دن بدن گھٹتے جا رہے ہیں اور سوائے اللہ تعالیٰ کے سورج کے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہو ئے آکسیجن کے سب کچھ ختم ہو تا جا رہا ہے۔اس لیے ہمیں پانی کے استعمال میں بھی نہایت ہی احتیاط برتنی چاہیے ،اور بارش کے پانی کو محفوظ بنا کر اس کے دیر پا استعمال کے نئے طریقے بھی ڈھونڈنے چاہیے۔بڑے بڑے پلانر ز اور زرعی ماہرین کی خدمات بھی لی جانی چاہیے کہ کس طرح سے کم پانی سے بھی زیادہ پیدا وار حاصل کی جاسکے ،عوام کو سیلاب سے بھی بچایا جاسکے اور ان کے لیے روزی رزق کا بھی بندوبست کیا جاسکے۔ دنیا میں اس وقت کئی ایسے ملک ہیں جنہوں نے صحرائوں میں سبزا زار بنا دیے ہیں اور کئی ایسے ممالک بھی ہیں کہ جو کہ نہایت ہی کم پانی ہونے کے باوجود ایسے بیچ بنا چکے ہیں جو کہ بہت کم پانی میں بھی بہترین پیدا وار دیتے ہیں۔ہمیں بھی اسی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔خلیفہ پنجم حضرت عمر بن عبدلعزیز نے بھی کہا تھا کہ بارش کے پانی کو صحرا بننے سے روکا جائے اور پوری زمین کو سیراب کیا جائے اور اس طریقے سے پوری عوام الناس کو فائدہ ہو ،اور ہر طریقے سے سہولت ملے۔بلوچستان اس وقت جل رہا ہے بلکہ ہر وقت ہی جلتا رہا ہے ،یہ بات نہیں ہے کہ بلوچستان میں اچھے عوامی نمائدہ گان موجود ہی نہیں ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ درست اور صاف اور شفاف الیکشن کروائیں جائیں جس سے صیح لوگ سامنے آئیں ،بلوچستان کے عوام کو آزادی سے اپنے نمائندے چننے کا موقع دیا جائے۔اگر دخل اندازی کے بغیر الیکشن ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے مسائل خود ہی حل ہو جا ئیں گے۔پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑی کرپشن کی بنیاد ہی جنرل ضیا الحق کے دور میں رکھی گئی جس سے پاکستان کی سیاست تباہ ہو کر رہ گئی ،کرپشن کا بازار گرم ہو ا اور سیاست بھی تباہ ہو گئی۔ضیا الحق نے ممبران کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر پیسے دے کر ان کی سائیکی ( psychy) ہی خراب کر ڈالی۔ممبران اسمبلی کا بنیادی کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے نہ کہ گلیاں اور نالیاں بنوانا یہ کام مقامی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کو کرنے دیے جائیں بہر حال بلو چستان میں بھی یہی ہو تا ہے کہ ممبروں میں فنڈ تقسیم کرکے یہ کہا جاتا ہے کہ اب ممبروں کی صوابدید ہے کہ فنڈز کو کہا ں استعمال کریں ،اور یہ فنڈز اکثر و بیشتر عوام پر لگنے سے پہلے ہی ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔مقامی حکومتوں کی سطح پر جو فنڈ دیے جاتے ہیں وہ ناکافی ہو تے ہیں اور تحصیل کی سطح پر آتے آتے تو چند لاکھ ہی رہ جاتے ہیں ،ان چند لاکھ رروپوں سے کیا ہو جائے گا ؟ بہر حال اسمبلی ممبران کو ملنے والے ان فنڈز نے پوری کی پوری سیاست کا نقشہ ہی بد کر رکھ دیا ہے اور وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے کہ الیکشن کمیشن ان فندز کے اس طرح سے اجرا اور ان کے استعمال پر پابندی لگائے۔یہی وقت کا تقاضا بھی ہے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے عملی قدم بھی۔

ای پیپر دی نیشن