بلاسبب نہیں بیزار آسمان سے ہم

Apr 10, 2009

محمد ساجد خان
قومی اسمبلی میں ملک بھر کے نمائندے صدر پاکستان کا دوسرا خطاب سننے کیلئے پُرجوش تھے۔ مگر خلافِ توقع صدر پاکستان بہت ہی سنجیدہ‘ ان کے چہرے کی صدا بہار مسکراہٹ گہری سوچوں کے سیلاب میں گم تھی۔ جیسے ہی محترمہ سپیکر صاحبہ نے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران سے خطاب کی دعوت دی۔ سنیٹر چودھری شجاعت حسین نے بولنے کی کوشش کی۔ مگر محترمہ سپیکر صاحبہ کا اصرار رہا کہ آج صرف اور صرف خطاب کا دن ہے۔ پیپلزپارٹی کے پرانے اور سابقہ رکن فیصل صالح حیات نے سینٹر چودھری شجاعت حسین سے سُر اور تال ملانے کی کوشش کی۔ مگر باہمی سُر میں سنگت کی کمی تھی۔ اگر اس وقت مسلم لیگ کے مشاہد حسین سید ہوتے تو محترمہ سپیکر صاحبہ کو ان کی بات سننی پڑتی۔ مگر سید صاحب آجکل آنے والے دنوں کے لئے نئے کڑاکے تراش رہے ہیں۔ خیر ہو اُن کی۔ وہ تھکی ہوئی سپاہ میں ابھی بھی حرکت پذیر ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی صدر پاکستان کے خطاب کی۔ دعوتِ خطاب پر صدر پاکستان کا چہرہ مزید سنجیدہ ہو گیا۔ انہوں نے دم بھر کیلئے اٹھنے میں وقت لگایا۔ پھر کھڑے ہو گئے۔ گہری آنکھوں سے پورے ماحول کا جائزہ لیا ‘ پانی پینے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگایا۔ فقط ایک گھونٹ سے حلق کو تر کیا اور شروع ہو گئے۔ مگر ہوا کیا۔ تقریر صدر پاکستان کر رہے تھے مگر لگ یہ رہا تھا کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین پارٹی کے تناظر میں پالیسی بیان کر رہے ہیں۔ مہربان امریکہ کی توجہ اور خلوص کا خصوصی انداز میں شکریہ ادا کیا۔ حالتِ حاضرہ پر مل جل کر چلنے کا عندیہ دیا۔ ماضی کی تاریخ کو بھی جتلایا پھر تاریخ کی کروٹ کا بھی حوالہ دیا۔ گورنر راج کے خاتمہ کا رسمی اعلان بھی کر دیا۔
اس دفعہ بھی تقریر سے پہلے روسٹرم پر زوجۂ محترمہ بینظیر بھٹو کی فوٹو رکھی تھی جس سے ان کی فکر کی اطلاع ملتی ہے۔ بڑے نرم اور جذبات سے ملی جلی تقریر تھی۔ ان کا تقریباً آدھے گھنٹے کا بھاشن صلح اور شانتی کے تناظر میں جمہوریت کا ایک بھرپور نقشہ پیش کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ نہ قائداعظم کا ذکر‘ نہ قائدِ عوام کی فکر‘ نہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند ہو سکا۔ بینظیر بھٹو کے قتل پر نوحہ گری اور کوفیوں کی طرح قاتلوں تک رسائی کے دعوے۔ نہ ایٹم بم کا ذکر اور نہ ہی بینظیر کی سوچ پر پارٹی کو پیغام۔ پھر یک دم اختتام سے ذرا پہلے ’’کھپے پاکستان‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا۔ ایک فقیرانہ صدا تھی جس کا مطلب تھا جو ساتھ دے اس کا بھی بھلا اور جو ساتھ نہ ہو اُن کا بھی بھلا۔‘‘
ہمارے عوام بہت کچھ کی امید لگا کر صدر محترم کی تقریر سن اور دیکھ رہے تھے۔ مگر سیاست کی پٹاری سے کچھ بھی تو نیا اور انوکھا نہ نکلا۔
اِدھر وزیراعظم پاکستان لاہور میں شریف برادران کے ساتھ نیک تمنائوں کے حوالہ سے ملاقات طے کی اور رائے ونڈ چل کر گئے تو پنجاب کے لاٹ صاحب کو فکر لاحق ہوئی کہ بس اب پانسا پلٹ رہا ہے مگر اب حساب برابر کرنے کا وقت گزر چکا تھا۔
پھر عدالت عالیہ نے شریف برادران کو انصاف دینے کی نوید دی تو سابق ملٹری صدر کو ملک سے باہر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ اب چین جا رہے تھے۔ ان کا چین جانا اور پاکستانی سرکار کی خاموشی سازشوں کا تال میل ہے۔ ایک ایسے نامزد ملزم کو جس نے پاکستان کی سالمیت اور بقا کو دائو پر لگا دیا وہ کن کی وجہ سے آزاد پھر رہا ہے۔ سابق صوبے دار پنجاب جناب شہبازشریف اب تو وہ وزیراعلیٰ اور خادم اعلیٰ بھی ہیں اس معاملہ پر خاموش ہیں اور یہ تبدیلی عوام کے حقدار کے حوالہ سے اچھی نہیں۔
columnistnote@gmail.com
مزیدخبریں