اس دفعہ بھی تقریر سے پہلے روسٹرم پر زوجۂ محترمہ بینظیر بھٹو کی فوٹو رکھی تھی جس سے ان کی فکر کی اطلاع ملتی ہے۔ بڑے نرم اور جذبات سے ملی جلی تقریر تھی۔ ان کا تقریباً آدھے گھنٹے کا بھاشن صلح اور شانتی کے تناظر میں جمہوریت کا ایک بھرپور نقشہ پیش کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ نہ قائداعظم کا ذکر‘ نہ قائدِ عوام کی فکر‘ نہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند ہو سکا۔ بینظیر بھٹو کے قتل پر نوحہ گری اور کوفیوں کی طرح قاتلوں تک رسائی کے دعوے۔ نہ ایٹم بم کا ذکر اور نہ ہی بینظیر کی سوچ پر پارٹی کو پیغام۔ پھر یک دم اختتام سے ذرا پہلے ’’کھپے پاکستان‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا۔ ایک فقیرانہ صدا تھی جس کا مطلب تھا جو ساتھ دے اس کا بھی بھلا اور جو ساتھ نہ ہو اُن کا بھی بھلا۔‘‘
ہمارے عوام بہت کچھ کی امید لگا کر صدر محترم کی تقریر سن اور دیکھ رہے تھے۔ مگر سیاست کی پٹاری سے کچھ بھی تو نیا اور انوکھا نہ نکلا۔
اِدھر وزیراعظم پاکستان لاہور میں شریف برادران کے ساتھ نیک تمنائوں کے حوالہ سے ملاقات طے کی اور رائے ونڈ چل کر گئے تو پنجاب کے لاٹ صاحب کو فکر لاحق ہوئی کہ بس اب پانسا پلٹ رہا ہے مگر اب حساب برابر کرنے کا وقت گزر چکا تھا۔
پھر عدالت عالیہ نے شریف برادران کو انصاف دینے کی نوید دی تو سابق ملٹری صدر کو ملک سے باہر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ اب چین جا رہے تھے۔ ان کا چین جانا اور پاکستانی سرکار کی خاموشی سازشوں کا تال میل ہے۔ ایک ایسے نامزد ملزم کو جس نے پاکستان کی سالمیت اور بقا کو دائو پر لگا دیا وہ کن کی وجہ سے آزاد پھر رہا ہے۔ سابق صوبے دار پنجاب جناب شہبازشریف اب تو وہ وزیراعلیٰ اور خادم اعلیٰ بھی ہیں اس معاملہ پر خاموش ہیں اور یہ تبدیلی عوام کے حقدار کے حوالہ سے اچھی نہیں۔
columnistnote@gmail.com