جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ ......
جنرل میک کرسٹل نے ونسٹن چرچل کی یاداشتوں سے متاثر ہو کر مسئلہ افغانستان کے حل کیلئے نئی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو چرچل کے ان خیالات سے ماخوذہے:
’’جب بھی عسکری طاقت استعمال کرتے ہوئے نیا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر افغانوں کی جانب سے اتنے ہی سخت رد عمل کا مظاہرہ ہوا۔‘‘
اسلحہ کا اندھا دھند استعمال نہ صرف غیرضروری اور غیر موثرثابت ہوا ہے بلکہ اس سے نفرت اور دشمنی میں اضافہ بھی ہوا۔ مسئلے کے حل کیلئے ضروری تھا کہ فوجوں کو وہاں سے نکال لیا جائے اور قبائیلی نظام کو قابل عمل بنایا جائے اور انہیں اپنے انداز سے جینے کا حق دیا جائے‘ جہاں قبائلی خونی تصادم روزمرہ کا معمول ہے۔‘‘
اس نئی حکمت عملی کو سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے ذریعے اس امید پرتیار کیا گیا تھا کہ پاکستان آرمی‘ جس نے جنوبی وزیرستان سے طالبان کا صفایا کر دیا ہے‘ وہ اب افغانستان میں طالبان کی سرکوبی کیلئے تیار ہو گی لیکن امریکہ سے واپسی پر جنرل کیانی نے یہ کہتے ہوئے انکی امیدوںپانی پھیر دیا کہ: ’’پاکستان آرمی شمالی وزیرستان میں طالبان کیخلاف آپریشن کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی افغانستان کے اندراتحادی افواج کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ ‘‘ یوں جہادیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنے کی امریکی منصوبہ بندی اسی طرح دھری کی دھری رہ گئی ہے جس طرح صوبہ ہلمند میںمرجاء پر قبضے کیلئے انکی تمام تر کوششیں مرجاء کے بازار میںایک بوسیدہ مکان پرامریکی جھنڈا لہرانے تک محدود رہیں ۔اور اب اتحادیوںکی کارروائی کا اگلا ہدف قندھار ہے جہاں طالبان کی جانب سے سخت رد عمل متوقع ہے۔ یہ معرکہ اتحادیوں کی عسکری جارحیت کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہوگا اور اسی مقام پر عسکری جارحیت (Surge)کا زور بھی ٹوٹ جائیگا۔
لہٰذادرمیانی مدت کے انتخابات سے قبل عسکری لحاظ سے کسی قسم کی فوری کامیابی کا فی الحال کو ئی امکان نہیںہے کہ جسے امریکی قوم کے سامنے پیش کیا جا سکے اور نہ ہی مالدیپ منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوجوں کو نکال کر قبائل کو انکے حال پر چھوڑے جانے کا کوئی واضح امکان ہے۔ مالدیپ منصوبہ در اصل تباہ کن اثرات کا حامل ہے۔مثلأ 1988-89ء میں افغانی مجاہدین اور پاکستانی حکومت نے افغانستان سے روسی افواج کے پر امن انخلاء کوممکن بنایا تھا لیکن حکومت بناتے وقت مجاہدین (پختونوں) کو نظر انداز کر دیا گیا جسکے سبب خانہ جنگی شروع ہوئی اور اب تیسری بار اگر پختونوں کو نظر انداز کیا گیا توموجودہ حالات میں قابض فوجوں کے پرامن انخلاء کی ضمانت نہ تو پاکستان دے سکے گا اور نہ ہی طالبان۔
اوبامہ کی جانب سے سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی کامیابی کا اعلان کرنے کیلئے کابل پہنچ جانا محض امریکی عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک ناکام کوشش تھی کیونکہ ’افغانستان میں عسکری حکمت عملی بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اب مالدیپ منصوبہ رو بہ عمل ہونے سے پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہے۔اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ افغانستان میں کونسی حکمت عملی قابل عمل ہوگی؟ اس کا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ ’’افغانی طالبان کے ساتھ مل کرامن کی راہیں تلاش کی جائیں۔‘‘ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب قابض فوجوں کوآج کے طالبان کی اصلیت کا صحیح علم ہواور انکے ساتھ گفت و شنید کی راہ اختیار کی جائے۔یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کے طالبان 1989-90ء کے طالبان سے قطعی طور پر مختلف ہیں۔ آ ج کے طالبان کی اصلیت کا اظہارامریکی سی آئی اے کی ویب سائٹ(The Long War Journal) میں تفصیل کیساتھ موجود ہے۔اس سخت جان قوت میں گذشتہ تیس سالوں میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جوجنگ کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں اور وہ اپنی
آزادی کیلئے لڑنے کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ پہلے روسیوں کی طرف سے اور اب امریکہ کی جانب سے مسلط کی گئی ننگی جارحیت کے طفیل ان افغانی جوانوں نے زندگی کی کوئی خوشی نہیں دیکھی۔انکی زندگی کا طورطریقہ ایسا ہے کہ ان کیلئے زندہ رہنا اور مرجانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دنیا کی دو سپر طاقتیں اور یورپ کی قابل فخر نیٹو افواج انہیں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو چکی ہیں۔وہ ایسی حقیقت ہیں جنہیں صحیح طور سے سمجھا ہی نہیں گیالیکن اسکے باوجوداگرکوئی طاقت ان سے بات چیت کرنے کو تیار ہوتو انہیں سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
سارے فسانے میں اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ طالبان سے کس طرح بات کی جائے کیونکہ مہذب دنیا انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کے نام سے پکارتی ہے اور یہی بات ان سے بات چیت کرنے اورباہمی افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ پہلے انہیں دہشت گرد کی بجائے مجاہدین آزادی کہہ کر پکاریں۔ ملا عمر کے کہنے کیمطابق ’’یہ وہ مجاہدین ہیں جنہوں نے گذشتہ تیس سالوں میں اپنے وطن کی آزادی اور خود مختاری‘اپنی تہذیبی و سماجی اقدار کے تحفظ کی خاطر اپنی تین نسلیں قربان کر دی ہیں اور وہ افغانستان میںامریکی منصوبوں اور پالیسیوئوں کورد کرتے ہیں جنہیں وہ اپنی روایات سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے ۔لہذا وہ اس وقت تک جنگ کرتے رہینگے جب تک قابض فوجیں انکے ملک سے نکل نہیں جاتیںاور افغانستان جب آزاد ہوگا تو وہ خود آزادانہ فیصلے کرینگے۔‘‘
امریکہ اور طالبان کے مابین اعتماد کی کمی ہے کیونکہ امریکیوں نے 1989ء میں جینوا معاہدے کے وقت انہیں دھوکہ دیا تھا اور پھر 2001ء میں بون کانفرنس کے وقت حکومت سازی کے عمل میں پختون اکثریت جوکہ کل آبادی کا 55 فیصد ہے‘ نظر انداز کیا گیا اور فاتح ہونے کے باوجود انکے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔مالدیپ منصوبہ جو کہ حال ہی میں ترتیب دیا گیا ہے اور ابھی عملدرآمد کا منتظر ہے ‘یہ بھی طالبان کے ساتھ ایک اور دھوکہ ہو گا اور افغانستان میں قیام امن کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگاـ۔پاکستان ‘ امریکہ اور اتحادی چاہتے ہیں کہ ’’افغانستان طالبان کے زیرکنٹرول نہ رہے۔‘‘ حالانکہ انہیں اس قسم کا مطالبہ کرنا کسی قانون کے تحت درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کا حق صرف افغانستان کے عوام کو حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک میں اپنی مرضی کا نظام نافذ کریں۔ہمارے قریب ترین پڑوسی ممالک میں چین ایک ایسا ملک ہے جوکیمونزم اور سوشلسٹ نظریات پر پوری طرح کاربند رہتے ہوئے دنیا کا ایک امن پسند ملک ہے۔ ایران اسلامی نظریات کا پیروکار ہے اور اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دی جانیوالی تمام تر دھمکیوں اور خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پرسکون ہے۔ اسی طرح طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان بھی آئین و قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے اسلامی نظریات پر کاربند رہے گا اور امن کا خواہاں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا افغانیوں کو‘ کہ جنہوں نے بیرونی جارحیت کے سبب گذشتہ تیس سالوں میںجومصائب جھیلے ہیں ان کا مداوا کرنے کیلئے ان سے بات چیت کی راہ اپنائے‘ خصوصأ پاکستان اور امریکہ کو افغانستان میں اپنے مفادات میں یگانگت پیدا کرتے ہوئے اپنی پوزیشن کا از سر نو تعین کرنا ہوگا تا کہ خطے میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
افغانستان سے امریکہ اور اتحادی فوجوں کے نکل جانے کے بعد وہاں کرزئی جیسے امریکہ نواز ٹولے کی حکومت نہیں چل سکے گی جو امریکہ کے مفادات کو تحفظ مہیا کرسکے لیکن اگرطالبان سے گفت و شنید کی راہ اختیار کرتے ہوئے باہمی اعتماد کی بحالی‘ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کا آغاز اور روسی وامریکی فوجوں کی چڑھائی کے سبب افغانستان کی تباہ حالی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا ازالہ کیا جائے‘ توطالبان اس قسم کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ جارح قوتوں کو چاہئے کہ چرچل کی سوچ کے تحت قبائلیوں کو آپس میں لڑانے اور خونی تصادم میں مبتلا کرنے کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے افغانیوں کو انکے تہذیب و تمدن کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیں۔
جنرل میک کرسٹل نے ونسٹن چرچل کی یاداشتوں سے متاثر ہو کر مسئلہ افغانستان کے حل کیلئے نئی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو چرچل کے ان خیالات سے ماخوذہے:
’’جب بھی عسکری طاقت استعمال کرتے ہوئے نیا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر افغانوں کی جانب سے اتنے ہی سخت رد عمل کا مظاہرہ ہوا۔‘‘
اسلحہ کا اندھا دھند استعمال نہ صرف غیرضروری اور غیر موثرثابت ہوا ہے بلکہ اس سے نفرت اور دشمنی میں اضافہ بھی ہوا۔ مسئلے کے حل کیلئے ضروری تھا کہ فوجوں کو وہاں سے نکال لیا جائے اور قبائیلی نظام کو قابل عمل بنایا جائے اور انہیں اپنے انداز سے جینے کا حق دیا جائے‘ جہاں قبائلی خونی تصادم روزمرہ کا معمول ہے۔‘‘
اس نئی حکمت عملی کو سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے ذریعے اس امید پرتیار کیا گیا تھا کہ پاکستان آرمی‘ جس نے جنوبی وزیرستان سے طالبان کا صفایا کر دیا ہے‘ وہ اب افغانستان میں طالبان کی سرکوبی کیلئے تیار ہو گی لیکن امریکہ سے واپسی پر جنرل کیانی نے یہ کہتے ہوئے انکی امیدوںپانی پھیر دیا کہ: ’’پاکستان آرمی شمالی وزیرستان میں طالبان کیخلاف آپریشن کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی افغانستان کے اندراتحادی افواج کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ ‘‘ یوں جہادیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنے کی امریکی منصوبہ بندی اسی طرح دھری کی دھری رہ گئی ہے جس طرح صوبہ ہلمند میںمرجاء پر قبضے کیلئے انکی تمام تر کوششیں مرجاء کے بازار میںایک بوسیدہ مکان پرامریکی جھنڈا لہرانے تک محدود رہیں ۔اور اب اتحادیوںکی کارروائی کا اگلا ہدف قندھار ہے جہاں طالبان کی جانب سے سخت رد عمل متوقع ہے۔ یہ معرکہ اتحادیوں کی عسکری جارحیت کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہوگا اور اسی مقام پر عسکری جارحیت (Surge)کا زور بھی ٹوٹ جائیگا۔
لہٰذادرمیانی مدت کے انتخابات سے قبل عسکری لحاظ سے کسی قسم کی فوری کامیابی کا فی الحال کو ئی امکان نہیںہے کہ جسے امریکی قوم کے سامنے پیش کیا جا سکے اور نہ ہی مالدیپ منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوجوں کو نکال کر قبائل کو انکے حال پر چھوڑے جانے کا کوئی واضح امکان ہے۔ مالدیپ منصوبہ در اصل تباہ کن اثرات کا حامل ہے۔مثلأ 1988-89ء میں افغانی مجاہدین اور پاکستانی حکومت نے افغانستان سے روسی افواج کے پر امن انخلاء کوممکن بنایا تھا لیکن حکومت بناتے وقت مجاہدین (پختونوں) کو نظر انداز کر دیا گیا جسکے سبب خانہ جنگی شروع ہوئی اور اب تیسری بار اگر پختونوں کو نظر انداز کیا گیا توموجودہ حالات میں قابض فوجوں کے پرامن انخلاء کی ضمانت نہ تو پاکستان دے سکے گا اور نہ ہی طالبان۔
اوبامہ کی جانب سے سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی کامیابی کا اعلان کرنے کیلئے کابل پہنچ جانا محض امریکی عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک ناکام کوشش تھی کیونکہ ’افغانستان میں عسکری حکمت عملی بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اب مالدیپ منصوبہ رو بہ عمل ہونے سے پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہے۔اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ افغانستان میں کونسی حکمت عملی قابل عمل ہوگی؟ اس کا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ ’’افغانی طالبان کے ساتھ مل کرامن کی راہیں تلاش کی جائیں۔‘‘ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب قابض فوجوں کوآج کے طالبان کی اصلیت کا صحیح علم ہواور انکے ساتھ گفت و شنید کی راہ اختیار کی جائے۔یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کے طالبان 1989-90ء کے طالبان سے قطعی طور پر مختلف ہیں۔ آ ج کے طالبان کی اصلیت کا اظہارامریکی سی آئی اے کی ویب سائٹ(The Long War Journal) میں تفصیل کیساتھ موجود ہے۔اس سخت جان قوت میں گذشتہ تیس سالوں میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جوجنگ کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں اور وہ اپنی
آزادی کیلئے لڑنے کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ پہلے روسیوں کی طرف سے اور اب امریکہ کی جانب سے مسلط کی گئی ننگی جارحیت کے طفیل ان افغانی جوانوں نے زندگی کی کوئی خوشی نہیں دیکھی۔انکی زندگی کا طورطریقہ ایسا ہے کہ ان کیلئے زندہ رہنا اور مرجانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دنیا کی دو سپر طاقتیں اور یورپ کی قابل فخر نیٹو افواج انہیں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو چکی ہیں۔وہ ایسی حقیقت ہیں جنہیں صحیح طور سے سمجھا ہی نہیں گیالیکن اسکے باوجوداگرکوئی طاقت ان سے بات چیت کرنے کو تیار ہوتو انہیں سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
سارے فسانے میں اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ طالبان سے کس طرح بات کی جائے کیونکہ مہذب دنیا انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کے نام سے پکارتی ہے اور یہی بات ان سے بات چیت کرنے اورباہمی افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ پہلے انہیں دہشت گرد کی بجائے مجاہدین آزادی کہہ کر پکاریں۔ ملا عمر کے کہنے کیمطابق ’’یہ وہ مجاہدین ہیں جنہوں نے گذشتہ تیس سالوں میں اپنے وطن کی آزادی اور خود مختاری‘اپنی تہذیبی و سماجی اقدار کے تحفظ کی خاطر اپنی تین نسلیں قربان کر دی ہیں اور وہ افغانستان میںامریکی منصوبوں اور پالیسیوئوں کورد کرتے ہیں جنہیں وہ اپنی روایات سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے ۔لہذا وہ اس وقت تک جنگ کرتے رہینگے جب تک قابض فوجیں انکے ملک سے نکل نہیں جاتیںاور افغانستان جب آزاد ہوگا تو وہ خود آزادانہ فیصلے کرینگے۔‘‘
امریکہ اور طالبان کے مابین اعتماد کی کمی ہے کیونکہ امریکیوں نے 1989ء میں جینوا معاہدے کے وقت انہیں دھوکہ دیا تھا اور پھر 2001ء میں بون کانفرنس کے وقت حکومت سازی کے عمل میں پختون اکثریت جوکہ کل آبادی کا 55 فیصد ہے‘ نظر انداز کیا گیا اور فاتح ہونے کے باوجود انکے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔مالدیپ منصوبہ جو کہ حال ہی میں ترتیب دیا گیا ہے اور ابھی عملدرآمد کا منتظر ہے ‘یہ بھی طالبان کے ساتھ ایک اور دھوکہ ہو گا اور افغانستان میں قیام امن کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگاـ۔پاکستان ‘ امریکہ اور اتحادی چاہتے ہیں کہ ’’افغانستان طالبان کے زیرکنٹرول نہ رہے۔‘‘ حالانکہ انہیں اس قسم کا مطالبہ کرنا کسی قانون کے تحت درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کا حق صرف افغانستان کے عوام کو حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک میں اپنی مرضی کا نظام نافذ کریں۔ہمارے قریب ترین پڑوسی ممالک میں چین ایک ایسا ملک ہے جوکیمونزم اور سوشلسٹ نظریات پر پوری طرح کاربند رہتے ہوئے دنیا کا ایک امن پسند ملک ہے۔ ایران اسلامی نظریات کا پیروکار ہے اور اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دی جانیوالی تمام تر دھمکیوں اور خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پرسکون ہے۔ اسی طرح طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان بھی آئین و قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے اسلامی نظریات پر کاربند رہے گا اور امن کا خواہاں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا افغانیوں کو‘ کہ جنہوں نے بیرونی جارحیت کے سبب گذشتہ تیس سالوں میںجومصائب جھیلے ہیں ان کا مداوا کرنے کیلئے ان سے بات چیت کی راہ اپنائے‘ خصوصأ پاکستان اور امریکہ کو افغانستان میں اپنے مفادات میں یگانگت پیدا کرتے ہوئے اپنی پوزیشن کا از سر نو تعین کرنا ہوگا تا کہ خطے میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
افغانستان سے امریکہ اور اتحادی فوجوں کے نکل جانے کے بعد وہاں کرزئی جیسے امریکہ نواز ٹولے کی حکومت نہیں چل سکے گی جو امریکہ کے مفادات کو تحفظ مہیا کرسکے لیکن اگرطالبان سے گفت و شنید کی راہ اختیار کرتے ہوئے باہمی اعتماد کی بحالی‘ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کا آغاز اور روسی وامریکی فوجوں کی چڑھائی کے سبب افغانستان کی تباہ حالی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا ازالہ کیا جائے‘ توطالبان اس قسم کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ جارح قوتوں کو چاہئے کہ چرچل کی سوچ کے تحت قبائلیوں کو آپس میں لڑانے اور خونی تصادم میں مبتلا کرنے کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے افغانیوں کو انکے تہذیب و تمدن کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیں۔