صابر بخاری
وطن عزیز پاکستان میں مذاکرات اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔دہشت گرد جب چاہیں اور جہاں چاہیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں جب کہ حکام اور سیکورٹی ادارے مذاکرات کے چکر میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔8اپریل کو شدت پسندوں نے اپنی سفاکیت کا نشانہ صوبہ بلوچستان کے سبی ریلوے سٹیشن پر کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کو بنایا جس میں 17 مسافر جاں بحق جب کہ 40 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعے کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کر لی ہے۔ ریلوے اور پولیس حکام کے مطابق منگل کو دوپہر ایک بجے جعفر ایکسپریس جیسے ہی سبی ریلوے سٹیشن پر رکی دس منٹ کے اندرٹرین کی بوگی نمبر 9 میں زور د ار دھماکہ ہو گیا۔ دھماکے سے ٹرین کی تین بوگیوں کو شدید نقصان پہنچا اور وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔حکام کے مطابق دھماکے میں 20کلو گرام کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا جو ٹرین کے اندر ہی نصب کیا گیا تھا۔ دھماکے کے بعد سٹیشن اور ٹرین میں آگ بھڑک اٹھی جس کی زد میں آ کر 17 مسافر جاں بحق جب کہ 40 سے زیادہ زخمی ہو گئے جن میں متعدد کی حالت نازک ہے۔ حادثے کے بعد پاک فوج، پولیس اور لیویز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ فائر بریگیڈ سمیت دوسری امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور دو گھنٹے بعد آگ پر قابو پایا جا سکا۔ امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو سول ہسپتال ،کمبائنڈ ملٹری ہسپتال سبی اور پانچ شدید زخمیوں کو آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ منتقل کیا۔ جعفرایکسپریس کوریسکیو آپریشن کے بعد راولپنڈی کے لئے روانہ کر دیا گیا۔ جعفر ایکسپریس میں دھماکوں نے ریلوے کے چیکنگ کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔صدر ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف، عمران خان، الطاف حسین، وزیر اعلیٰ بلوچستان، ڈاکٹر عبدالمالک سمیت کئی سیاسی رہنمائوں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے زخمیوں کو مکمل طبی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا۔ سعد رفیق نے دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء کے لئے 5لاکھ جب کہ زخمی ہونیوالوں کیلئے 2لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔ دھماکے کے بعد ملک بھر کے ریلوے سٹیشنوں اور ٹرینوں کی سیکورٹی سخت کر دی گئی۔ آئی جی ریلوے نے ایڈیشنل آئی جی منیر احمد چشتی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے ہوم سیکرٹری بلوچستان اسد گیلانی کے مطابق سبی ریلوے سٹیشن پر دھماکے کا کیس تحفظ پاکستان بل کے مطابق درج کیا جائے گا۔ واقعے کی تحقیقات کرنے والی ٹیموں نے ابتدائی تحقیقات کے بعد بتایا کہ بم ٹرین کے واش روم میں نصب کیا گیا تھا ٹرین شیڈول سے 10 منٹ پہلے سبی ریلوے سٹیشن پر پہنچی ملازمین واش رومز کو پانی کی سپلائی میں مصروف ہو گئے۔ دھماکہ ایف سی اور سراغ رساں کتوں کی طرف سے ٹرین کی سیکورٹی کلیئرنس سے قبل ہوا ۔بد قسمت ٹرین صبح 9 بجے کوئٹہ سے کراچی کے لئے روانہ ہوئی اور سبی ریلوے سٹیشن پر ایک بجے پہنچی اور ایک بج کر دس منٹ پر دھماکہ ہو گیا۔ حکام کے مطابق سترہ میں سے صرف دو نعشیں قابل شناخت تھیں لاشوں کی شناخت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے لیبارٹری کو بھجوا دئیے گئے ہیں۔ نامعلوم مقام سے میڈیا سے فون پر بات کرتے ہوئے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ سبی ریلوے سٹیشن پر حملہ ایف سی کے قلات، تربت،پنجگور، اور بلوچستان کے کئی دوسرے علاقوں میں کئے جانے والے آپریشن کا بدلہ ہے۔ انہوں نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ ٹرین کے ذریعے سفر نہ کریں کیونکہ وہ اس طرح کی مزید کاروائیاں آپریشن کے بدلے میں کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے علاقے قلات میں ایف سی نے پیر کو درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ ایف سی ترجمان کے مطابق ضلع قلات کے پہاڑی علاقے پاردو میں سیکورٹی فورسز نے کارروائی کی آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جب کہ ایف سی کی کارروائی میں 30 سے زیادہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ اس کارروائی میں 12 ایف سی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ ماضی میں بھی بلوچ عسکریت پسندوں کی طرف سے ٹرینوں کونشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں جعفر ایکسپریس بھی شامل ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ڈیرہ مراد جمالی میں پٹڑی پر دھماکے سے جعفر ایکسپریس کی کئی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اگست 2013ء میں جعفر ایکسپریس کو راکٹ سے نشانہ بنایا گیا تھا جس سے ٹرین کا انجن تباہ ہو گیا تھا جس کے بعد رکی ہوئی ٹرین پر ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس سے دو مسافر بھی ہلاک ہو گئے تھے اسی طرح جنوری 2013ء میں بھی اس ٹرین پر حملہ کیا گیا جس میں تین افراد ہلاک اور انیس زخمی ہو گئے تھے۔ خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے ایف سی کے آپریشن کے رد عمل کے طور پر ٹرین میں دھماکے کئے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے قانون کی رٹ کو قائم کرے اور شر پسند عناصر سے سختی سے نمٹا جائے۔ مذاکرات کو طول دینے کی بجائے جلد ہی فیصلہ کیا جائے کہ ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کیسے کرنا ہے یونہی وقت گزرتا گیا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔