کون کہتا ہے کہ پاکستانی سیاست دان فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہیں،موجودہ حالات میں پاکستانی قیادت نے مشکل حالات میں زیادہ مشکل فیصلے کئے ،پاکستان آج ایک برے دور سے گذر رہا ہے، دہشت گردی بے روزگاری غیر ملکی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ نواز حکومت کو آغاز سے ہی سخت چیلنجز کا سامنا رہا،پھر لوڈ شیڈنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ان حالات کے علاوہ عمران خان کے دھرنے نے حالات کو مزید گھمبیر کردیا،اس ساری صورتحال میں میاں برادران کے بعد جس شخص پر سب سے زیادہ پریشر آیا وہ چودھری نثار تھے۔ ان پر دھرنے کے دوران اور ملک کی داخلی صورتحال کے سب سے زیادہ پریشر تھا۔ خیر وہ ان تمام حالات میں سرخرو ٹھہرے۔ لگتا ہے ایک بار پھر انکا امتحان آٹھہرا ہے۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد ایک بار پھر توپوں کا رخ انکی جانب مڑادوسری طرف کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد بہت ساری باتیں اور بہت سارے حقائق سامنے آئے بلکہ کراچی میں امن و امان کے قیام اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کُنی کے حوالے سے کیے جانیوالے اقدامات بھی ایک واضح اور ٹھوس شکل کا روپ اختیار کرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے دوران سنگین جرائم میں ملوث سزا یافتہ مجرموں اور عدالتوں کو مطلوب مشتبہ افراد کی گرفتاری، ممنوعہ ، غیر قانونی اور ناجائز اسلحہ کی برآمدگی اور اشتہاری مجرموں کی موجودگی نے متحدہ قومی موومنٹ کو’’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘ کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ متحدہ اس صورتحال سے چھٹکارا پانے کیلئے مظلومیت کا لبادہ اُوڑھ کر قومی سلامتی کے اداروں بالخصوص فوج کے خلاف الزام تراشیوں اور دُشنام طرازیوں پر اُتر آئی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا حالیہ بیان متحدہ کیلئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ نائن زیرو پر مجرموں کی موجودگی سوالیہ نشان ہے ۔ فوج اور رینجرز کیخلاف متحدہ کی ہرزہ سرائی ناقابلِ برداشت حدوں کو چھونے لگی ہے دُنیا میں کسی ملک میں اپنی فوج کیخلاف ایسی زبان استعمال نہیں ہوئی یہ کیسی منطق ہے کہ ایک روز فوج کے حق میں اور اگلے ہی دن اُس کیخلاف قابلِ مذمت زبان استعمال کی جائے۔ متحدہ خود کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے اب مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔متحدہ اگر اپنے مؤقف کو درست سمجھتی ہے تو عدالت سے رجوع کرے۔ کوئی مانے یا نا مانے لیکن وزیر داخلہ کا موجودہ بیان اس صورتحال میں خاصہ معنی خیز ہے،انکا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو ماضی کی طرح کی بہانہ بازی ،الزام تراشی، دھونس، دھاندلی اور مظلومیت کا لبادہ اُوڑھ کر اپنے آپ کو بے گناہ اور معصوم ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ دہشتگردی کی عدالت سے اُس نے جرائم میںملوث افراد کا جو ریمانڈ لیا ہے صولت مراز اور فیصل موٹا کی پھانسی کی سزائوں پر عملدرآمد کیلئے جو پیش رفت ہوئی ہے اور متحدہ کے گرفتار کارکن عمیر حسن صدیقی عرف جیلر نے 120 افراد کو قتل کرنے اور دیگر بہت سارے جرائم میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اس نے متحدہ کی پوزیشن اور بھی نازک اور کمزور بنا دیا ہے۔ سیاسی بیانات اور شورشرابا اپنی جگہ لیکن خود متحدہ کی قیادت کو اچھی طرح علم ہے کہ متحدہ کس حد تک ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور مخالفین کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کے جرائم میں ملوث ہے۔ یہاں متحدہ کے ماضی کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو نوے کی دہائی کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں جب جنرل نصیر اللہ بابر (مرحوم) وفاقی وزیرِ داخلہ کے منصب پر فائز تھے تو انہوں نے کراچی میں امن و امان کے قیام کیلئے سخت آپریشن شروع کیا اُس وقت بوری بندلاشوں، ٹارگٹ کلنگ اور ٹارچر سیلز کا چلن عام تھا متحدہ نے کراچی میں خوف و ہراس کی ایسی فضا قائم کر رکھی تھی کہ کسی کو اُس کیخلاف بولنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ الزام لگانے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس لکھنے والے نے سر نہ جھکایا اسے ایسی سزا دی گئی کہ اسکے لواحقین بھی احتجاج کرنے سے ڈرنے لگے لیکن وقت سدا ایک سا نہیں رہتا آج متحدہ کی قیادت مکافات عمل کا شکار ہے اور وہ مقتدر اداروں کے ساتھ میڈیا کے ردعمل کا بھی شکار ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا معاملہ ہے جو اُسکے حواس پر سوار ہے برطانوی پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ بڑی حد تک قتل کے شواہد اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پچھلے دنوں اپنے دورہِ امریکہ سے واپسی پر برطانیہ میں دو دن کا قیام کیا تو اُن کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سکاٹ لینڈ یارڈ کو مطلوبہ معلومات فراہم کی جائینگی۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادت پر برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے الزاما ت بھی موجود ہیں جن کی تحقیقات ابھی ہونی ہے پھر جناب الطاف حسین کے حالیہ دنوں میں دیے گئے ایسے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں اُنہوں نے سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے بعض ارکان کیخلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان سے لگتا ہے کہ لندن کے لیڈر کی پارٹی پر گرفت اتنی مضبوط نہیں رہی ۔ ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کے احتجاجی خطابات اور بیانات میں وہ گھن گرج ، غیض و غضب اور آہ و زاری موجود نہیں جو ماضی میں اُنکا خاصہ تھی نہ ہی ایم کیو ایم کے دوسرے ذمہ دار عہدیداروں کے وضاحتی بیانات میں دلائل و براہین کا وہ عنصر پایا جاتا ہے جس سے وہ اپنے خلاف عائد چارج شیٹ کو رد کر سکیں ایم کیو ایم کی مظلومیت کا پردہ بھی چاک ہو چکا ہے لگتا ہے اسے مکافاتِ عمل کا سامنا ہے۔
چودھری نثار سے ایم کیو ایم تک
Apr 10, 2015