اٹھارہ کروڑ پاکستانی، سبز ہلالی پرچم کو اقوام عالم کی صف میں سربلند دیکھناچاہتے ہیں۔لیکن قائداعظم محمد علی جناح ؒ کاپاکستان، ایسے مسائل کا شکار ہے جن کاٹھوس حل آج کا چیلنج ہے۔ خارجہ پالیسی ،معیشت ، تجارت ،درآمد و برآمد ،انسانی حقوق ،تعلیم ،صحت ، روزگار ، ایسے شعبے ہیں کہ جہاں ہمارے ملک میں ہر روز نئے تجربات کیے جاتے ہیں۔ دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو بلامبالغہ چار قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ کم ازکم گزشتہ تیس برس کاجائزہ لیاجائے تو تین سیاسی جماعتیں اقتدار میںموجود نظر آتی ہیں اور اسکے باوجود یہ جماعتیں اعلان بھی کرتی ہیںکہ اس بار مسائل کا حل کردیں گی۔
؎ وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا
آ ج پاکستان کو ان گنت اندرونی و بیرونی خطرات کاسامنا ہے۔ بھارت کی جانب سے شاید ہی کوئی دن ایساگزرتاہے کہ جب کشمیر یا پنجاب کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ نہ ہوتی ہو ، خود کش حملوں کیلئے جو بارود استعمال کیاجارہاہے وہ تباہ کن مواد ، بھارت کاتیار کردہ ہے۔ امریکی صدر کے دورۂ بھارت کے بعد بھارت کی شرارتوں میں اضافہ ہوچکاہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے جس قدر بھارت کیساتھ نرمی دکھائی ہے بھارت کی کارروائیوں میں اُسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے اور کشمیر ’’اٹوٹ انگ ‘‘ کے نعرے ،پاک انڈیا دوستی ، کے بادلوں میں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔جموںوکشمیر میں استصواب کامطالبہ اندھیروں میں ڈوب رہاہے۔
پاکستان کا شہر ی گزشتہ تیس برس سے باری باری برسراقتدار رہنے والی جماعتوں سے سوال کرتاہے کہ انہوںنے قوم کیلئے کیا کردار ادا کیاہے ؟ 10 روپے کاڈالر سو روپے کاہوگیاہے ، ماش کی دال 180روپے کلو فروخت ہو رہی ہے ،پیٹرول 20روپے سے بڑھ کر 76روپے لیٹر پرہے ، خوراک نہ ملنے کے سبب خودکشیوں کی تعداد کاجائزہ لیاجائے تو 1947… 1985ء تک کے اعداد و شمار موجودہ دور میں پچاس گنا بڑھ چکے ہیں ۔ باری طے کرکے برسر اقتدار آنیوالی سیاسی جماعتیں بجلی کے بحران کا حل نہیں ڈھونڈ سکیں ہیں ، ایک سیاسی جماعت ’’ماماشہید ‘‘ کے قاتلوں کی تلاش کاڈھول پیٹ رہی ہے اور دوسری جماعت ’’ایٹمی دھماکوں کے کارنامے ‘‘ کے ہر روز اعلان سے عوام کا پیٹ بھرتی چلی آ رہی ہے۔تیسری جماعت قیادت کو وطن بلانے کے لیے سرمیں خاک ڈال رہی ہے۔
پاکستانی جس قدر جفاکش قوم ہیں دنیا کے ہر حصے میں اُس کا شہرہ ہے اور پاکستان کے پاس جس قدر وسائل ہیں ،انکو دیانتدار قیادت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام مل جاتا تو سانحہ بنگلہ دیش اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک جیسی افسوس ناک تحریکیں جنم نہ لیتیں ۔لیکن بنگلہ دیش قصہ ماضی ہے ۔ سندھ ثقافت اور میٹروبس نے سب کچھ فراموش کرادیا ہے۔
منتخب جمہوری حکومت کاتختہ اُلٹنے اور آئین پاکستان کی واضح دفعات کی خلاف ورزی کرنیوالے ، ایس ایس جی کمانڈو سابق صدر پاکستان پھر نئے عزم سے میدان عمل میں اُترے ہوئے ہیں کہ اُنکے پاس قوم کی تقدیر بدلنے کافارمولا موجود ہے ،وہ بلاشرکت غیرے اقتدار میں تھے ، اُس وقت کوئی کام کیوں نہ کرسکے۔ چین ، ملائیشیا ، سنگاپور جیسے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوگاکہ ان تین ممالک میں سیاستدانوں نے پچاس برسوں میں جس قدر مالی بدعنوانی کی ہوگی۔ پاکستان کے سیاستدان وہ ایک برس میں کر گزرتے ہیں ۔بدعنوانی اور بدمعاملگی کے معاملات کی بناء پر استعفیٰ دینے والے وزراء کی شرح شاید دنیا بھر میں سب سے کم پاکستان میں ہے۔NABکی فہرست کیمطابق افراد گرفتار کیے جائیں تو کئی منتخب اراکین لسٹ میں آجائیں۔ نفرت اور تعصب کی بناء پر سیاست کرنیوالی قیادت اور دین کے نام پر مفادات سمیٹنے اور چیئرمین شپ حاصل کرنیوالے قائدین سے بھی پاکستانی عوام آگہی حاصل کرچکے ہیں۔ سیاستدان ، ایک دوسرے پر جو الزامات عائد کرتے ہیں اُن کا جائزہ لیاجائے تو پاک دامن کم ہی نظر آئینگے ، پھر تعمیر و ترقی کے دور کاآغاز کیسے ہو ۔
یقیناً بات درست ہے کہ
چہرے نہیں ،نظام کو بدلو
تبدیلی اور نئے پاکستان کانعرہ لگانے والی ایک اور جماعت نے اپنے اردگر ایسے د سینکڑوں لوگ بھی جمع کرلیے ہیں جو سیاسی اور مالی بدعنوانی کی وجہ سے دیگر جماعتوں سے نکالے جا چکے ہیں اور ’’خان صاحب ‘‘ کی کشتی کے ملاح بن بیٹھے ہیں ، قائد اعظم ؒ نے ایمان،اتحاد ،تنظیم کے جو نعرے دئیے تھے ، وہ گم ہوچکے ہیں۔ موجودہ سیاستدانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں تبدیل کردیا ہے جس میں ٹھہرنا بھی موت ہے اور قدم اٹھانا بھی۔اس دلدل سے نکالنے کیلئے ہمیں اپنا کردار اداکرناہوگا۔
میری مانو، چلو چل کر منجدھار میں کو دیں
وگرنہ دیکھنا ساحل پہ سارے ڈوب نہ جائیں گے
قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کے تین نعروں’’ ایمان ، اتحاد ، تنظیم ‘‘ کو جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے ’’اسلامی پاکستان …خوشحال پاکستان‘‘ کے نعرے کی نئی شکل میں ہے۔ بے داغ ماضی اور شاندار سیاسی خدمات کے حامل سراج الحق کی تربیت ایک ایسی تنظیم نے کی ہے کہ جہاں اسلام کی عالمگیر تعلیمات پر عملدرآمد بھی ہے ، جمہوریت کادور دورہ بھی ہے اور پاکستان کو خوش حال بنانے کے لیے اپنی جان قربان کرنے کاجذبہ بھی ، مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی فکر کے حامل محترم میاں طفیل محمد ؒ،محترم قاضی حسین احمد ؒ اور صاحب کردار وعمل سیدمنورحسن کے تیار کردہ سراج الحق نے آج پھر اس قوم کوایمان،اتحاد،تنظیم کی طرف پکارا ہے۔ اُن کاپیغام صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستانی عوام اپنی قومی قیادت میں تبدیلی لائیں گی ، تبدیلی کے لیے وہ کسی زیر زمین سرگرمی ، کسی زیر زمین انقلاب اور مقتدر قوتوں کے ساتھ ساز باز کے قائل نہیں ہیں بلکہ عوام الناس کی رائے ہی کو تبدیلی کا اصل مظہر سمجھتے ہیں ۔ القاعدہ ،طالبان اور داعش ،تبدیلی کا ماڈل ہرگز ہرگز نہیں ۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاست ہی اصل ماڈل دے۔ آ ج جماعت اسلامی اپنے ستر سالہ ماضی اور بے داغ قیادت کے ساتھ رابطہ عوام کی مہم چلا رہی ہے اُسے اسلام کے سچے دین ہونے ، محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی برحق ہونے ،خلافت راشدہ کے مثالی نظام حکومت ہونے پاکستان کے قیامت تک برقرار رہنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ آج پاکستانی عوام کے سامنے یہی دعوت ہے کہ اپنی اور آنے والی نسلوں کی بقا کاواحد راستہ یہ ہے کہ دس رنگی اور پندرہ رنگی زندگی چھوڑ کر یک رنگی اختیار کی جائے ، منافقت ،لوٹ کھسوٹ کو سب سے پہلے اپنی زندگی سے نکالا جائے اور اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو دین اسلام ، خوشحالی وطن اور تعمیر و ترقی قوم کے لیے قربان کردیاجائے ، تب ہی پاکستان اقوام عالم میں سربلند ہوگا اور ہم اُس مقام کو حاصل کرسکیں گے جس کے صرف نعرے لگاتے رہے ہیں۔
پھیلی ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں
اس میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوتے
٭…٭…٭
خوشحال پاکستان بذریعہ تبدیلی ٔ قیادت
Apr 10, 2015