اردو کو دفتری زبان بنانے کیلئے دائر درخواست کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ درخواست گزار کوکب اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ بابائے قوم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہو گی، سرکاری زبان نہ بنانے کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی تفریق پائی جاتی ہے، محب وطن والدین کے بچے عام اسکولوں میں اور امراء کے بچے آکسفورڈ کا نصاب پڑھتے ہیں،جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ کیا آرٹیکل دو سو اکیاون آئین کا حصہ نہیں، اگر ہے تو اس پر عمل کب ہونا ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل عبدالرشید اعوان نے بتایا کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کیلئے ادارہ قائم کردیاگیا ہے جو کام کررہاہے، کچھ مہلت دی جائے، جسٹس جواد نے کہاکہ آرٹیکل دوسو اکیاون میں اس کیلئے کسی ادارے کے قیام کا کوئی ذکر نہیں، اس آرٹیکل کے تحت انیس سو اٹھاسی تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ دیا جانا تھا، ستائیس برس مزید گزر گئے، ابھی تک عمل نہیں ہوا۔ حکومت بتائے، کیا اس نے آئین کی پاسداری نہیں کرنی؟ کیا ملک ابھی تک استعمار کی کالونی ہے؟ آئین کی خلاف ورزی پر اہل اقتدار کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے، حکومت بتا دے کہ آئین کی کونسی شقیں ہیں جن کا اطلاق ضروری نہیں۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے کہاکہ رپورٹ بنا کر جمع کرانا یقینی بنائیں، ایسا نہ ہو کہ اب جواب جمع کرانے میں بارہ برس کا عرصہ لگ جائے، کیس کی سماعت بیس اپریل کے بعد شروع ہونے والے عدالتی ہفتے میں ہو گی۔
سپریم کور ٹ نےحکومت سے اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ دینے میں تاخیر کی وجوہات طلب کر لیں
Apr 10, 2015 | 21:55