بھارت کے ساتھ تاپی گیس میں شراکت ہرگز مناسب نہیں

تاپی پائپ لائن کمپنی لمیٹڈ کے شیئر ہولڈرز نے سرمایہ کاری کے سمجھوتے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز اشک آباد ترکمانستان میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ یہ معاہدہ پاکستان، افغانستان، بھارت اور ترکمانستان کے مابین طے پایا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے پاکستان اور چین کی جاسوسی بڑھانے کےلئے امریکہ سے 40 ڈرون خریدنے کا اعلان کیا ہے۔
ملکی ترقی و خوشحالی کےلئے وافر مقدار میں توانائی کی دستیابی ناگزیر ہے۔ پاکستان میں لاکھوں صنعتیں اور کاروبار محض گیس اور بجلی کی قلت کے باعث بند ہو گئے ہیں لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دیرینہ دشمن بھارت کی شراکت سے تاپی گیس پائپ لائن پر کام شروع کیا جائے جبکہ تاپی سے زیادہ بہتر طریقے سے اور سستی گیس ہمیں برادر اسلامی ملک ایران سے مل سکتی ہے جس کےلئے پہلے ہی دونوں ممالک میں گیس پائپ لائن معاہدہ ہو چکا ہے اور ایران نے اپنی طرف سے پائپ لائن بچھا بھی دی ہے۔ اگر پاکستان بھی مقررہ وقت میں اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا دیتا تو 31 دسمبر 2014ءسے پاکستان کو گیس کی فراہمی شروع ہو جاتی اور معیشت کا پہیہ بھی رواں ہو جاتا 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تاپی گیس لائن کا منصوبہ 1995ءکے اوائل میں شروع کیا گیا تھا اگر یہ منصوبہ اتنا ہی آسان ہوتا تو مسلسل 20 سال سے یوں لٹکا نہ رہتا ماضی کی حکومتوں نے تو اس سے خلاصی اختیار کر لی کیونکہ یہ منصوبہ افغانستان میں استحکام آنے پر ہی موثر ثابت ہو سکتا ہے دوسرا بھارت تاپی گیس معاہدے کا حصہ ہے۔ بھارت کی پاکستان کو پہیم دباﺅ میں رکھنے کیلئے کئی پہلوﺅں سے یلغار جاری ہے۔ سرحدی کشیدگی کے علاوہ بلوچستان اور کراچی میں بھارت کی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اب بھارتی جاسوس کلبھوشن نے تو سارے رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ گزشتہ روز ترکمانستان میں جس وقت تاپی منصوبے کےلئے سرمایہ کاری کے سمجھوتے پر دستخط ہوئے اسی وقت بھارت نے پاکستان اور چین کی جاسوسی بڑھانے کےلئے امریکہ سے 40 ڈرون خریدنے کا اعلان کیا۔ بھارت کے اس جارحانہ اقدام کے بعد تو اس کے ساتھ گیس پائپ لائن جیسے منصوبہ میں شراکت پاکستان کی سلامتی کے خلاف اسے اپنی سازشیں مزید پھیلانے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

ای پیپر دی نیشن