تاریخ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو وہاں پر دینی و دنیاوی تعلیم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ابن سینا، جابر بن حیان، ابو الہیثم اور البیرونی جیسے سائنسدان مدارس دینیہ کی ہی پیداوار ہیں، غزالی و رازی، رومی وجامی جیسے مفکرین ، دینی مدارس سے ہی افکار کے عروج پر فائز ہوئے۔ہارون الرشید، مامون الرشید، صلاح الدین ایوبی، نور الدین زنگی، سلطان ٹیپو، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور عالمگیر جیسے فاتح اقوام بادشاہ سلاطین نے شعور و آگہی کے لیے مدارس دینیہ ہی سے اکتساب فیض کیا ۔ مدارس دینیہ نے ہر دور میں نگہبانی امت کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ تشکیل و تطہیر معاشرہ میں بلا شبہ دینی مدار س کا ناقابل تردید کردار رہا ہے۔ دور حاضر میں بلاشبہ دینی مدارس لاکھوں طلباءکی کفالت کر رہے ہیں اور ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے بڑا منظم ” فلاحی سسٹم“ دینی مدارس ہیں۔دین وملت کی خدمت کرنے والے دینی مدارس کی تعداد ویسے تو ہزاروں میںہے ۔ تاہم چند مدارس ایسے ہیں جنہیں مدارس کی ” ماں“ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگااور اب وہ مدارس محض ایک مدرسہ ہی نہیں ہیں بلکہ ایک تحریک کا روپ دھار چکے ہیں جو کام بڑی بڑی جماعتیں نہ کر سکیں وہ کام ایک دینی مدرسہ اکیلے ہی کر گزرتا ہے۔انہی فیض بار، فکر آفریں، تحریک انگیز اور افراد گردینی مدارس میں ایک سنہرا نام ” جامعہ رضویہ ضیاءالعلوم “کا ہے جامعہ رضویہ ضیاءالعلوم کا آغاز شعبان المعظم 1383ھ بمطابق 1964میں جامع مسجد سبزی منڈی راولپنڈی سے ہوا اور اس کے بانی حضرت سید غلام محی الدین شاہ سلطان پوری اور حضرت سید حسین الدین شاہ سلطان پوری ہیں۔ بانیان کے اخلاص ،لگن اور تندھی کے باعث ایک کمرے سے شروع کیا جانے والا مدرسہ اب ایک تحریک کا روپ دھار چکا ہے ۔جامعہ رضویہ ضیاءالعلوم سے اس وقت ہزاروں طلباءو تشتگان علم فیض پا چکے ہیں اور اب برطانیہ، ساو¿تھ افریقہ، ہالینڈ، امریکہ، فرانس، بوٹسوانہ، فجی، آئرلینڈ، یو اے ای، اور سکاٹ لینڈ سمیت دنیا بھر میں تبلیغ و اشاعت دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ جہاں مختلف مقامات پر سینکڑوں مدارس قائم کیے جا چکے ہیں۔یوں تو جامعہ رضویہ ضیاءالعلوم نے مختلف شعبہ جات میں دین و ملت کی خدمت کا لوہا منوایا ہے تاہم جامعہ کے شعبہ خواتین ” جامعہ آمنہ ضیاءالبنات “کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔جامعہ آمنہ ضیاءالبنات کا قیام 1993میں جامعہ رضویہ ضیاءالعلوم کے ساتھ ملحقہ پرشکوہ بلڈنگ سیٹلائٹ ٹاو¿ن راولپنڈی میں ہوا۔پہلے تعلیمی سال کا پہلا داخلہ 24اپریل 1993کو ہوا۔ پہلے تعلیمی سال میں کل 81 طالبات نے مختلف تعلیمی شعبہ جات میں داخلہ کیا۔بانیان و متظمین جامعہ کی تعلیمی قابلیت اور تندہی ولگن کے باعث علمی حلقوں میںادارے کی شہرت اس قدر ہوئی کہ گنجائیش سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں جس کے باعث منتظمین کو مجبواً قرعہ اندازی پر طالبات کو داخلہ دینا پڑا۔
جامعہ میں تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کے نصاب کے تحت ثانویہ عامہ، (میٹرک)ثانویہ خاصہ (ایف اے )عالیہ (بی اے)اوردررجہ عالمیہ (ایم اے اسلامیات )کے امتحانات دلوائے جاتے ہیں ۔علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا امتزاج ادارے کے مشن کو چار چاند لگا رہا ہے ۔ ادارہ میں طالبات کو عصری علوم کے امتحانات فیڈرل بورڈ اسلام آباد اور راولپنڈی بورڈ سے دلوائے جاتے ہیں۔ جامعہ آمنہ کی دیگر خصوصیات میں سے ایک ادارے میں ماہر لیڈی ڈاکٹرز کی زیر نگرانی ادارے میں ابتدائی طبی کورس کی تعلیم بھی ہے۔جامعہ سے اس سے قبل ہزاروں طالبات مختلف شعبہ جات سے تحصیل علم کی سعادت حاصل کر چکی ہیںاور برطانیہ، ساو¿تھ افریقہ مارشیس، فرانس، ملائشیائ، سکارٹ لینڈ، آسڑیلیا پاکستان اور آزاد کشمیر سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کرتے ہوئے سینکڑوں مدارس قائم کر چکی ہیں۔جامعہ آمنہ ضاءالبنا ت کی وسعت اور ضرورت کے پیش نظر بانیان جامعہ نے 24کنال پر محیط ایک قطعہ اراضی واقعہ ہمک ٹاو¿ن اسلام آباد میںحاصل کیا ۔ اہل اسلام کے تعاون سے 30 مارچ 2001 کو اس قطعہ اراضی پر عظیم الشان بین الاقوامی وومن یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں علماءومشائخ اور دیگر سیاسی، سماجی اور صحافتی شخصیات نے شرکت کی۔
اس قطعہ اراضی پر اس وقت عظیم الشان مسجد، 200کمروں پر مشتمل 4 بلاکس اور عظیم الشان خیراتی ہسپتال المدینہ ہیلتھ سنٹر کی تعمیرات مکمل ہو چکی ہیں۔2009میں اس نیو کمپس اسلام آبادکے تعلیمی اور رہائشی بلاکس کا افتتاح ہو چکا ہے ۔جہاں ااس وقت 9سو کے قریب طالبات زیر تعلیم ہیں۔
جامعہ کے تمام شعبہ جات میں طالبات کو مفت تعلیمی تربیتی اور رہائشی سہولیات حاصل ہیں ادارے کے اخراجات اہل دل معاونین کے تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں ۔جامعہ کے پر سکون اور قابل فخر 25سال مکمل ہورہے ہیں جس کی خوشی میں اللہ کے حضور اظہار تشکر کے لیے 4 روزہ سلور جوبلی تقریبات منعقد ہوئی ایک اہم تقریب یکم اپریل صبح 9بجے جامعہ آمنہ ضیاءالبنات ہمک ٹاو¿ن اسلام آباد میں ” عالمی محفل میلاد “ منعقد ہو ئی تھی جس میںمفتی لیاقت علی افریقی ، مولانا یوسف افریقی، قاضی عبد الخبیر چشتی لندن ، مولانا بشارت ضیائی برمنگھم ، مولانا خالد محمود شیرازی برڈ فوڈ، مولانا صدیق ضیائی لندن اورمولانا خورشید قادری ڈربی سمیت دنیا بھر سے 200سے زائد مندوبین نے شرکت کی ۔