جنرل قمر جاوید باجوہ کا پہلا برطانوی دورہ

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ گذشتہ ہفتے ایک مختصر وفد کے ہمراہ برطانیہ کے دورہ پر آئے۔ بحیثیت آرمی چیف اُن کا یہ پہلا سرکاری برطانوی دورہ تھا جس میں انہوں نے باہمی علاقائی امور، دوطرفہ عسکری تعلقات، دہشت گردی کے خاتمہ، مشترکہ مفادات کے تحفظ اور پاک افغان سرحد سکیورٹی کے حوالہ سے برطانوی، سیاسی اور عسکری حکام سے اہم ملاقاتیں کیں۔
جنرل باجوہ کے اِس کامیاب سرکاری دورہ پر بھارت نواز بعض عسکری حلقوں کی پیشانیوں پر سلوٹیں بھی دیکھنے کو ملیں جس سے اُن کی تنگ نظری اور تعصب واضح طور پر نظر آیا تھا تاہم برطانوی حکومت کی جانب سے انہیں ملنے والی غیرمعمولی پذیرائی نے یہ ثابت کر دیا کہ پاک برطانیہ دوستانہ تعلقات کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھرپور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ MiNiSTARY OF DEFENCE کے دورہ کے دوران برطانوی دورہ کے دوران برطانوی چیف آف جنرل سٹاف NiCNOLAS.P.CARTER اور یو۔ایس۔آر سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل JOHN NiCNOLSEN نے جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کیں جن میں پاک افغان سکیورٹی میکنزم کی اہمیت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افغانستان کو مزید اقدامات کرنے پر زور دیا۔ اپنے اعزاز میں منعقدہ اِس تقریب میں انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی واضح کر دیا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو اپنے ہمسایوں سے محبت و اخوت کا خواہاں ہے۔ خطے میں امن و استحکام افواج پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ ROYAL UNiTED SERVICES INSTITUTE سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے خطے میں امن و استحکام جغرافیائی و سیاسی صورتحال اور پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں معاشی خوشحالی کے لئے سی پیک ناگزیر تھا جس میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ دشمنوں کی خواہش تھی کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں سفارتی طور پر تنہا کیا جائے مگر اُن کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کشمیر کے تنازعہ سمیت تمام دوسرے تنازعات بھی حل کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک افواج پاکستان اپنی قومی سلامتی کی ذمہ داریاں پوری کرتی رہے گی۔
لندن میں پاکستان ہائی کمشن میں جنرل باجوہ کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیات، کونسلرز، ارکان پارلیمنٹ، ہائوس آف لارڈز کے ممبران، برطانوی وزارت دفاع کے اعلیٰ افسران، تھنک ٹینکس اور سیاسی و سماجی اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب کے سکیورٹی انتظامات کو اِس مرتبہ غیرمعمولی بنایا گیا تھا۔ فرسٹ سیکرٹری برائے پریس منیر احمد کی جانب سے 8 نکات پر مشتمل سکیورٹی گائیڈ لائن مہیا کی گئی تھی جس کے تحت تقریب میں شامل صحافیوں، کالم نگاروں، فوٹوگرافروں اور ٹی وی نمائندوں کو اپنے ہمراہ کیمرہ فوٹوگرافی میٹریل، ریکارڈنگ آلات لانے اور کوریج کی سخت ممانعت تھی۔ اِس طرح ہر شخص کو ہائی کمشن کے اندر اپنا موبائل فون لانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ تقریب کی کوریج کے لئے صرف P.T.V کو اجازت دی گئی تھی۔ اِس حوالے سے بیوروچیف احسان چودھری اور اُن کے معاون موبائل فون سے مستثنیٰ تھے۔
نجی ٹیلی ویژنز کے بعض نمائندوں نے ’’صاب سلامت‘‘ کا فارمولہ استعمال کرتے ہوئے ریکارڈنگ کیمرے اور فون اندر لے جانے کی کوششیں بھی کیں مگر انہیں وہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کی انہیں توقع تھی۔ ہائی کمشنر سید ابن عباس کی طے کردہ اِس سکیورٹی پالیسی کو خوب سراہا گیا۔ تقریب میں چونکہ آرمی چیف سمیت برطانوی وزارت دفاع اور اراکین پارلیمنٹ کے معززین بھی شامل تھے اِس لئے اِس فنکشن کو حساس رکھا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی اہلیہ سمیت جونہی ہائی کمشن کے مرکزی ہال میں داخل ہوئے، سید ابن عباس نے صحافیوں، کالم نگاروں، ٹی وی نمائندوں، اراکین ہائوس آف لارڈز اور ہائوس آف پارلیمنٹ سے اُن کا فرداً فرداً تعارف کرواتے ہوئے برطانیہ کی بزنس کمیونٹی کی جانب سے انہیں خوش آمدید کہا۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا کہ لندن میں اپنے ہم وطنوں سے ملاقات کر کے انہیں دلی مسرت ہوئی ہے۔ اپنے دورہ برطانیہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے انہوں نے پاک برطانیہ دوستانہ تعلقات کو دونوں ممالک کے لئے خطے کا اعلیٰ اعزاز قرار دیا۔ برطانیہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہی نہیں کر رہا۔ دونوں ممالک کے STRATEGiC تعلقات بھی قابل ستائش ہیں۔ جنرل باجوہ نے پاکستانیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وطن میں ’’کوٹھیاں‘‘ بنانے کے بجائے بزنس کمیونٹی ملک میں سرمایہ کاری کرے تاکہ معاشی استحکام میں مزید اضافہ ہو سکے۔ پاک افغان سرحدی کشمکش اور بھارتی جارحیت کے حوالہ سے بھی انہوں نے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے افواج پاکستان کی قربانیوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ملک سے لوڈشیڈنگ مارچ 2018ء تک ختم ہو جائے گی۔ لوڈشیڈنگ کا یہ وقت انہوں نے کس پیرامیٹر کے تحت دیا۔ سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ تقریب کے اختتام پر ہائی کمشن کے سبزہ زار پر اُن کے اعزاز میں ایک پرتکلف عشائیہ دیا گیا مگر ویڈیو کیمروں اور موبائل فونز کی یہاں بھی ممانعت رہی۔
جنرل باجوہ کے اِس سرکاری دورے کے حوالہ سے ہی دو روز بعد ڈی۔جی آئی۔ایس۔پی۔آر میجر جنرل آصف غفور نے ہائی کمشن میں پریس کانفرنس میں ’’کھلے ڈھلے‘‘ ماحول میں کھل کر باتیں کیں۔ باتوں باتوں میں ہی انہوں نے ایسی باتیں بتلائیں جنہیں اخبارات میں شائع کرنے یا ٹی۔وی پر نشر کرنے سے قومی سلامتی پر سوالات اٹھ سکتے تھے۔ میجر جنرل آصف دوران گفتگو جنرل نہیں بلکہ ایک منجھے ہوئے صحافی نظر آئے…؟ صحافیوں کی جانب سے کئے سوالات کے جوابات انہوں نے یوں دیئے جیسے سوالات پہلے ہی انہیں معلوم تھے… ڈیڑھ گھنٹے کی پریس کانفرنس میں انہوں نے 3 سگریٹ پی کر سگریٹ نوشی کو بھی زندہ رکھا۔

ای پیپر دی نیشن